منگنی کیا ہے اورکیا دورِ نبوی میں اس کا رواج تھا؟
سؤال
کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ منگنی کی رسم کا ثبوت دورِ نبوی سے ملتا ہے؟ منگنی کیا ہے؟ الفقہ الاسلامی اور المفصل فی احکام المرأۃ والبیت المسلم میں"الخطبۃمجرد وعد بالزواج لازواجا" کہا گیا ہے جس سے لگتا ہے خطبۃ یعنی پیغام نکاح ہی منگنی وعد بالزواج ہے اگر یہ بات لے لی جائے تو پھر منگنی کے ثبوت کے دلائل بہت زیادہ ہوں گے جتنے صحابہ نے پیغام بھیجے وہ سب دلیل بن جائیںگے لیکن اگر یہ بات درست نہیں تو منگنی کا خیر القرون میںمروج معنی میں رواج تھا یا نہیں؟ بیٹھ کر نکاح کی تاریخ طے کی گئی ہو تو تحقیق فرمادیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب
عربی زبان میں خِطبہ کے حقیقی معنی پیغام نکاح اور نکاح کی بات چیت کے ہیں البتہ عرف عام میں خطبہ کا اطلاق منگنی پر انتہاء اور مآل کے اعتبار سے ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اولاپیغام دیا جاتا ہے پھرطرفین ایک دوسرے سے متعلق اطمینان کرلیتے ہیں اگر بات بن جائے تو وعدہ کرلیا جاتا ہے ،یہی پیغام نکاح نتیجۃً اور انتہاء وعدہ نکاح یعنی منگنی ہے البتہ ابتداءً اس کی حیثیت وعدہ نکاح کی نہیں۔
الفقہ الاسلامی اور المفصل کے مصنفین نے بھی خطبہ کے معنی پیغام نکاح کے کئے ہیں اور ان کا خطبہ کو”مجرد وعد بالزواج لازواجا“ کہنے سے دو باتوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ایک یہ کہ اگر کوئی عذر شرعی ہو تو خطبہ کو فسخ بھی کرسکتے ہیں کہ خطبہ نتیجۃً محض وعدہ ہے نکاح نہیں، دوسرا یہ کہ خطبہ کی بنیاد پر جانبین ایک دوسرے کے حق میں محرم نہیں بنتے کہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں۔
رہی بات خیر القرون میںمروجہ منگنی کا رواج تو تلاش بسیار کے بعد بھی کوئی صراحت نہ ملی جس میں بیٹھ کر تاریخ وغیرہ طے ہوئی ہو ، ہاں پیغام نکاح کے بعد آپس میں مشورہ کرنا، مہر وغیرہ متعین کرنا ملتاہے،لیکن تاریخ کی تعیین کا ذکر نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ ان حضرات کے ہاں تاریخ طے نہ ہوتی ہو کیونکہ یہ تاریخی واقعات ہیں جن کا من و عن ہم تک پہنچنا لازمی اور ضروری نہیں۔
لمافی القاموس المحیط (۶۵/۱) الخطبۃ بکسر الخاء مصدر خطب، یقال خطب المرأۃ خطبۃ وخطبا، واختطبھا، اذا طلب ان یتزوجھا، واختطب القوم فلانا اذا دعوہ الی تزویج صاحبتھم۔
وفی المعجم الوسیط (۲۴۳): خطب الناس خطبا وخطبۃ: طلبھا للزواج ویقال خطبھا الی اھلھا: طلبھا منھم للزواج۔الخطبۃ طلب المرأۃ للزواج والمرأۃ المخطوبۃ۔
وفی لغات القرآن (۳۱۳/۱): خِطبۃ پیغام نکاح، منگنی، نکاح کی بات چیت کو خطبۃ کہتے ہیں۔
وفی المرقاۃ (۲۷۸/۶) کتاب النکاح: الخطبۃ منھیۃ اذاکانا راضیین وتعین الصداق۔
وفی المفصل فی احکام المرأۃ (۵۸/۶) الخطبۃ: حکمۃ تشریعھا: اما حکمۃ تشریعھا فھی اعطاء فرصۃ کافیۃ للمرأۃ واھلھا واولیائھا للسؤال عن الخاطب والتعرف علی ما یھم المرأۃ واھلھا واولیائھم معرفتہ من خصال الخاطب مثل تدینہ واخلاقہ وسیرتہ ونحو ذلک ۔۔۔ وفی الخطبۃ أیضا فرصۃ للخاطب لیعرف عن المرأۃ مالم یعرفہ عنھا قبل الخطبۃ۔
وفی الفقہ الاسلامی وادلتہ (۶۴۹۲/۹): معنی الخطبۃ ھی اظھار الرغبۃ فی الزواج بامرأۃ معینۃ ۔۔۔ فان وافقت المخطوبۃ او اھلھا فقد تمت الخطبۃبینھما وترتبت علیھا احکامھا وآثارھا الشرعیۃ ۔۔۔ الخطبۃ والوعد بالزواج، وقراءۃ الفاتحہ، وقبض المھر، وقبول الھدیۃ لا تکون زواجا۔
وفی الشامیۃ (۸/۳) کتاب النکاح: وتقدیم خطبۃ ۔۔۔ واما بکسرھا فی طلب التزوج۔
نجم الفتاوی جلد 4
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں