ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

پتنگ اڑانے میں شرط


#بسم_اللہ_الرحمن_الرحیم 

 پتنگ اڑانے میں اگرجیت ہار کی شرط لگائی جائے، تو قمار ہونے کی وجہ سے حرام ہے. اگر شرط نہ ہو اور نمازیں پتنگ بازی میں انہماک کی وجہ سے فوت نہ ہوں، تو گنجائش ہے، زیادہ سے زیادہ خلافِ اولیٰ کہا جا سکتا ہے. (کتاب الفتاوی) 

آلہ لھو لعب ہونے کی وجہ سے پتنگ کی بیع کو مکروہ قرار دیا گیا. 
ما قامت المعصیۃ بعینہ یکرہ بیعہ تحریمًا وإلا فتنزیہًا۔ (شامي، الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۹؍۵۶۱ زکریا)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
مستفاد: کتاب الفتاوی  
======================
سوال: پتنگ اڑانا اور اسے بنا کر بیچنا اور اس کی تجارت کرنا ایک مسلمان کے لئے کیا حکم رکھتا ہے؟ اگر ناجائز ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟

الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلماً… جس کھیل میں دین یا دنیا کا کوئی بھی فائدہ ہو اور شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی بھی نہ ہوتی ہو تو ایسا کھیل کھیلنا جائز ہے، پتنگ اڑانے میں نہ تو دین کا کوئی فائدہ ہے اور نہ دنیوی کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس کی مشغولیت کی وجہ سے نمازیں قضا ہو جاتی ہیں اور جان و مال کی ہلاکت اور فضول خرچی اور بے پردگی جیسے گناہ ہوتے ہیں ، اس لئے پتنگ اڑانا یا کٹی ہوئی پتنگ کا لوٹنا سب ناجائز ہے، لہذا پتنگ بنانا اور اس کی تجارت کرنا سب گناہ کے کام میں مدد ہے اور ناجائز ہے۔ (فتاویٰ دار العلوم: ۲۸۴، جواہر الفقہ: ۳۴۴) فقط و اللہ تعالی اعلم
 ======================
پتنگ بازی جائز ہے یانہیں ؟
سوال ]۱۰۹۳۶[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : کہ پتنگ بازی جائز ہے یانہیں ؟
.5المستفتی.5: .5مولانا حفظ الرحمن، مدیر ندائے شاہی، مرادآباد

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: پتنگ بازی کے اندر وہ تمام مفاسدموجو د ہیں ، جو کبوتر بازی میں ہوتے ہیں ، مثلاً چھتوں پر چڑھنے کے وجہ سے عورتوں کی بے پردگی، ہار جیت، تضییع اوقات ، ہلاکت کاخطرہ وغیرہ وغیرہ، اطلاع ملی ہے کہ سال گذشتہ جے پور میں ۱۴؍ جنوری کو پتنگ لوٹنے میں ۱۵-۱۶ ؍ افراد چھتوں پر سے گر کر ہلاک ہوگئے ہیں ۔
نیز آنحضورا نے اس طرح بازی لڑکر لوٹنے والوں کو شیطان مردود سے تشبیہ دی ہے؛ اس لئے مذکورہ مفاسد اور آنحضور اکی ممانعت کی بنا پر پتنگ بازی و کبوتر بازی ناجائز اور حرام ہے ، مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ایسے مفاسد میں مبتلا ہونے سے لوگوں کو سختی یاحکمت سے روک تھام کیا کریں ۔

 (مستفاد: اصلاح الرسوم ۱۴، بہشتی زیور۶؍۶، مالابدمنہ ۱۶۳)
فإن کان یطیرہا فوق السطح مطلعاً علی عورات المسلمین (إلی قولہ) عزر ومنع أشد المنع، فإن لم یمتنع بذلک ذبحہا۔ (الدر المختار) 
======================
پتنگ اور پٹاخوں کی تجارت کا حکم
سوال ]۸۷۴۳[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : (۱) مسلمان کے لئے حلال پتنگ، پٹاخے کی تجارت جائز ہے یانہیں ؟ اور ان روپیوں کا استعمال مسلمان کے لئے حلال ہے یانہیں ؟
(۲) اگر مسلمان تاجر سے پتنگ یا پٹاخے کوئی غیر مسلم خریدے تو کیا حکم ہے؟ مع حوالہ تحریر فرمائیں ۔
المستفتی: محمد قاسم گجراتی، شریک دارالافتاء مدرسہ ہذا

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱-۲) پتنگ اور پٹاخے کی تجارت تعاون علی المعصیت کی وجہ سے مکروہ ہیں ۔ اور اس سے حاصل شدہ روپئے حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک حلال اور پاک ہیں ۔ اور امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک مکروہ ہے؛ کیوں کہ فساد دونوں میں مشترک ہے اور اس زمانہ میں فتویٰ اور عمل حضرات صاحبین کے قول پر ہے۔ (مستفاد: امداد الفتاوی ۴/ ۲۴۳)
قال اﷲ تعالیٰ: {وَتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} [المائدۃ: ۲]
ومستفاد من الدرالمنتقی: ومن حمل لذمي خمرا بأجر طاب لہ عند الإمام، وعندہما یکرہ للإعانۃ۔ (الدرالمنتقی، کتاب الکراہیۃ، فصل في الکسب، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴/ ۱۸۸، قدیم ۲/ ۵۳۰، شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع، کراچی ۶/ ۳۹۲، زکریا ۹/ ۵۶۲، تبیین الحقائق، إمدادیہ ملتان ۶/ ۲۹، زکریا دیوبند ۷/ ۶۴) فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۸؍ محرم الحرام ۱۴۱۱ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۲۶/ ۲۰۸۰)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر