حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی ہمارے عہد کی عظیم شخصیت

تصویر
حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی : ہمارے عہد کی عظیم شخصیت : از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری سابق استاذ دارالعلوم دیوبند : سفیرِ تصوف، تحریکِ ارشاد، الہامِ اصلاح، واعظِ روح، خطیبِ قلب، دوائے دل، بہارِ سلوک، انجمنِ تزکیہ، موسوعۂ معرفت، انقلابِ باطن، لسانِ صوفیا، قلمِ حقائق، کاشفِ اسرار، کاتبِ انوار، شارحِ دقائق، مفسرِ رموز، فاتحِ عقبات، دست گیر راہ، مشکِ عرفان، طلسمِ تقریر، سحرِ بیان، حضرت پیر فقیر ذوالفقار نقشبندی آج رحمہ اللہ ہو گئے۔ غالبا دو ہزار ایک کی بات ہے، راقم دارالافتا کا طالب علم تھا، ایک روز درس گاہ میں ایک کتاب نظر آئی، کتاب تو میں کیا ہی دیکھتا! مصنف کا نام مقناطیس بن گیا، پیشانی پر مرقوم "پیر فقیر" بالکل غیر روایتی معلوم ہوا تھا، فہرست نارمل جا رہی تھی؛ یہاں تک کہ ایک عنوان گلے پڑ گیا، اس کے الفاظ یہ تھے: "ہڑتال فقط جانچ پڑتال"، یہ سرخی بد نگاہوں کا سچا آئینہ تھی، میں اس کی ندرت کا شکار ہوا، پڑھنے گیا تو صاحبِ کتاب نے ایک نیا قاری دریافت کر لیا تھا، مجھے یہاں بلا کی ذہانت ملی، انھوں نے اصلاح کے ایک نکتے کو مزے دار، زندہ، ہم عصر اور تازہ ب...

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیہ مبارک


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک

(گذشتہ سے پیوستہ) گال گلابی رنگ کے تھے نہ پچکے ہوئے نہ چربی چڑھ کے ابھرے ہوئے بلکہ گولائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گال تھے۔ داڑھی مبارک بڑی گھنی تھی, سینے پہ پھیلی ہوئی تھی۔ داڑھی اور سینے پہ سترہ بال سفید تھے.. جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہندی لگایا کرتے تھے۔ اور کنگھی کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگ نہیں نکالتے تھے بلکہ سیدھے بال پیچھے لے جاتے تھے۔ کبھی کبھی جب مانگ نکلتی تھی تو بیچ میں سے نکلتی تھی دائیں بائیں سے نہیں نکالتے تھے۔ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھی کنگھی کرتے ہوئے بال پیچھے لے جاتے تھے۔ آپ کے جو پاؤں تھے وہ ایسے تھے جیسے ان پہ تیل لگا ہوا ہو۔ آپ جب وضو کے لئے پانی بہاتے تو ایسے بہہ جاتا جیسے تیل لگے پاؤں پر پانی بہہ جاتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں ایسے نرم و نازک تھے۔ اور ایسے چمکیلے تھے لگتا تھا جیسے تیل لگا ہوا ہے۔ تیل لگانے سے چیز چمک جاتی ہے لیکن آپ کے پاؤں بغیر تیل لگائے ہی چمکتے تھے۔ لگتا تھا جیسے تیل لگا ہوا ہے..آپ کے پاؤں کے تلوے بڑے گہرے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کسی کا جی نہیں بھرتا تھا۔ وسیم اس کو کہتے ہیں جس کو دیکھنے سے آنکھ نہ بھرتی ہو۔ جتنا آپ کو دیکھا جاتا آپ کا حسن بڑھ جاتا تھا۔ اور قسیم اس کو کہتے ہیں جس کو جدھر سے دیکھا جائے حسین نظر آئے۔ آگے پیچے دائیں بائیں جدھر سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہ نظر پڑتی حسن پھوٹتا ہوا نظر آتا تھا۔ جب آپ بات کرتے تھے تو آپ پہ ایک نور چھا جاتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوتے تو آپ پہ ایک وقار چھا جاتا تھا۔ سبحان اللہ!

( آؤ جنت پکارتی ہے ، صفحہ 53،52، از: مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل دامت برکاتہم )


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

مال اور عہدہ کی چاہت

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر