ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیہ مبارک


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک

(گذشتہ سے پیوستہ) گال گلابی رنگ کے تھے نہ پچکے ہوئے نہ چربی چڑھ کے ابھرے ہوئے بلکہ گولائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گال تھے۔ داڑھی مبارک بڑی گھنی تھی, سینے پہ پھیلی ہوئی تھی۔ داڑھی اور سینے پہ سترہ بال سفید تھے.. جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہندی لگایا کرتے تھے۔ اور کنگھی کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگ نہیں نکالتے تھے بلکہ سیدھے بال پیچھے لے جاتے تھے۔ کبھی کبھی جب مانگ نکلتی تھی تو بیچ میں سے نکلتی تھی دائیں بائیں سے نہیں نکالتے تھے۔ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھی کنگھی کرتے ہوئے بال پیچھے لے جاتے تھے۔ آپ کے جو پاؤں تھے وہ ایسے تھے جیسے ان پہ تیل لگا ہوا ہو۔ آپ جب وضو کے لئے پانی بہاتے تو ایسے بہہ جاتا جیسے تیل لگے پاؤں پر پانی بہہ جاتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں ایسے نرم و نازک تھے۔ اور ایسے چمکیلے تھے لگتا تھا جیسے تیل لگا ہوا ہے۔ تیل لگانے سے چیز چمک جاتی ہے لیکن آپ کے پاؤں بغیر تیل لگائے ہی چمکتے تھے۔ لگتا تھا جیسے تیل لگا ہوا ہے..آپ کے پاؤں کے تلوے بڑے گہرے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کسی کا جی نہیں بھرتا تھا۔ وسیم اس کو کہتے ہیں جس کو دیکھنے سے آنکھ نہ بھرتی ہو۔ جتنا آپ کو دیکھا جاتا آپ کا حسن بڑھ جاتا تھا۔ اور قسیم اس کو کہتے ہیں جس کو جدھر سے دیکھا جائے حسین نظر آئے۔ آگے پیچے دائیں بائیں جدھر سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہ نظر پڑتی حسن پھوٹتا ہوا نظر آتا تھا۔ جب آپ بات کرتے تھے تو آپ پہ ایک نور چھا جاتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوتے تو آپ پہ ایک وقار چھا جاتا تھا۔ سبحان اللہ!

( آؤ جنت پکارتی ہے ، صفحہ 53،52، از: مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل دامت برکاتہم )


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر