ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

ہند میں تھے لا مثالی حضرت وستانوی

ہند میں تھے لا مثالی حضرت وستانوی

 تحریر : مظاہر حسین عماد قاسمی

   7/ ذو القعدہ 1446
مطابق 4/5/2025
بوقت چھ تا نو بجے شب 

یہ خبر پڑھ کر اور سن کر بہت افسوس ہوا کہ خادم القرآن والمساجد مولانا غلام محمد وستانویؒ  آج بروز یکشنبہ بتاریخ سات ذو القعدہ 1446 ھ مطابق چار مئی 2025 کی دوپہر تقریبا ایک بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ،
 انا للہ و انا الیہ راجعون 

اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ، آمین ثم آمین ۔
 مولانا غلام محمد وستانویؒ (پیدائش: یکم جون 1950ء وفات 4/؛مئی 2025) ایک مستند عالم دین اور ماہرِ تعلیم تھے ، اور بہت اچھے منتظم تھے ۔وہ اکل کوا، مہاراشٹر میں واقع جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے بانی و مہتمم تھے ۔ انہوں نے اپنے اس ادارے کے تحت بھارت کے اقلیتی طبقے کے زیر انتظام پہلا میڈیکل کالج قائم فرمایا ، جو میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) سے تسلیم شدہ ہے۔ 
1419ھ مطابق 1998ء میں حضرت وستانویؒ دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک اس کے رکن رہے ۔  
حضرت وستانویؒ نے 2011ء میں مختصر وقت کے لیے دار العلوم دیوبند کے مہتمم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ وہ مولانا مرغوب الرحمن بجنوریؒ کی وفات کے بعد 11/ جنوری 2011 کو دار العلوم دیوبںد کے مہتمم مقرر ہوئے تھے ، مگر ان کی بعض باتوں سے وہاں کے طلبہ ، اساتذہ اور فضلائے دیوبںد میں اضطراب و تشویش پیدا ہوئی ، اس لئے دار العلوم دیوبںد کی جس مجلس شوری نے انہیں دار العلوم دیوبںد کا مہتمم مقرر کیا تھا اسی مجلس شوری نے انہیں 23/ جولائی 2011 کو دار العلوم دیوبند کے منصب اہتمام سے سبک دوش بھی کردیا اور ان کی جگہ پر دار العلوم الاسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس کے شیخ الحدیث اور فاضل دیوبند مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مدظلہ العالی کو مہتمم مقرر کیا جو تاحال مہتمم ہیں اور مولانا مفتی سعید پالن پوریؒ کی وفات کے بعد وہاں کے شیخ الحدیث بھی ہیں ۔مولانا غلام محمد وستانویؒ دار العلوم دیوبند کے بارہویں مہتمم تھے ۔ انہیں ملت اسلامیہ ہند نےخادم القرآن و المساجد کا لقب دیا. ان کو تین صاحب زادیاں اور تین صاحب زادے ہیں ، بڑے صاحب زادے سعید وستانوی کا 2019 میں انتقال ہوگیا ہے ، دو نوں چھوٹے صاحب زادے مولانا حذیفہ وستانوی اور مولانا اویس وستانوی باحیات ہیں ۔ منجھلے صاحب زادے مولانا حذیفہ وستانوی گذشتہ کئی سالوں سے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے نائب مہتمم ہیں ۔ اور وہ بھی انتظامی امور میں کافی مہارت رکھتے ہیں اور توقع ہے کہ اب وہی اس عظیم ادارے کے مہتمم ہوں گے ۔ چھوٹے صاحب زادے مولانا اویس وستانوی صاحب بھی جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم میں متوسطات تک کے استاذ ہیں۔

 خادم القرآن و المساجد
حضرت غلام محمد وستانوی رح قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنے اور مساجد کی تعمیر کی طرف بہت زیادہ توجہ دی ، ان کی جد و جہد سے لاکھوں بچے حافظ و قاری ہوئے ، انہوں نے ملک کے طول و عرض میں پچھتر سو مساجد اور پچیس سو مکاتب کے قیام اور تعمیر میں جزوی یا کلی طور پر حصہ لیا ۔ اسی لیے انہیں ملت اسلامیہ ہند نے خادم القرآن و المساجد کا لقب دیا ۔ 
وہ علمی اعتبار سے متوسط درجے کے عالم تھے مگر عملی میدان میں موجودہ دور میں ان کی مثال موجود نہیں ہے ۔ بلند ہمتی اور مسلسل جد وجہد انسان سے بہت بڑے بڑے کام لیتی ہے ، حضرت غلام محمد وستانوی رح کی زندگی ملت اسلامیہ کے ہر فرد کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے ۔

 نذر وستانوی
میں نے چند سال قبل ان کی مدح میں ایک قطعہ لکھا تھا 
 خادم قرآن و سنت حضرت وستانوی
 پیکر علم و عمل ہیں حضرت وستانوی 
 دین و دنیا کے ہیں جامع رہبر فکر و عمل
 ہند میں ہیں لامثالی حضرت وستانوی 

 ابتدائی اور تعلیمی زندگی 
مولانا غلام محمد وستانوی رح یکم جون 1950ء کو کوساڑی، ضلع سورت، گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1952ء یا 1953ء میں ان کا خاندان سورت ضلع کے ہی وستان نامی بستی میں منتقل ہوگیا، جس کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ وستانوی لکھے جاتے ہیں۔ حضرت وستانوی رح نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ قوت الاسلام کوساڑی میں حاصل کی، جہاں انھوں نے حفظ قرآن کیا۔انھوں نے بعد ازاں مدرسہ شمس العلوم بروڈہ میں تعلیم حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے 1964ء میں دار العلوم فلاح دارین، ترکیسر، گجرات میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اور 1972ء کے اوائل میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کے اساتذہ میں مولانا احمد بیمات، مولانا عبد اللہ کاپودروی، مولانا شیر علی افغانی اور مولانا ذو الفقار علی رحمہم اللہ شامل تھے۔
1972ء کے اواخر میں حضرت وستانوی رح نے مظاہر علوم سہارنپور، اتر پردیش میں داخلہ لیا اور دورۂ حدیث شریف پڑھ کر 1973ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔ انھوں نے بخاری امام فی الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رح سے پڑھی۔اس کے علاوہ انھوں نے ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔

 اصلاحی تعلق
1970ء میں دار العلوم فلاح دارین کے زمانۂ طالب علمی کے دوران، انھوں نے شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رح سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور 1982ء میں ان کی وفات تک ان سے استفادہ کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت قاری سید صدیق احمد باندوی رح سے رجوع کیا اور ان کے خلیفہ و مُجاز ہوئے۔ مزید یہ کہ انہیں حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رح سے بھی اجازتِ بیعت حاصل ہوئی۔

 
 تدریسی و عملی زندگی
تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت غلام محمد وستانوی رح نے قصبہ بوڈھان، ضلع سورت میں دس دن تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد 1973ء میں وہ دار العلوم کنتھاریہ، بھروچ تشریف لے گئے، جہاں ابتدائی فارسی سے متوسطات تک کی مختلف کتابوں کی تدریس ان سے متعلق رہی۔

 جامعہ اشاعت العلوم کا قیام
حضرت غلام محمد وستانوی نے جامعہ اشاعت العلوم کی بنیاد 1400ھ مطابق 1979ء میں ایک مکتب نما مدرسے کے طور پر رکھی۔ یہ ادارہ چھوٹی مکرانی پھلی مسجد، اکل کوا میں قائم کیا گیا، جہاں ابتدائی طور پر صرف چھ طلبہ زیر تعلیم تھے اور ان کے لئے ایک معلم رکھے گئے تھے۔ جامعہ اشاعت العلوم کی ترقی میں مولانا غلام محمد وستانوی رح اور ان کے رفقا کی کوششیں شامل ہیں، جنھوں نے اپنی محنت اور تنظیم کے ذریعے اس ادارے کو ایک مکتب سے مدرسہ اور مدرسے سے جامعہ میں تبدیل کیا۔ جامعہ اشاعت العلوم نے مختصر عرصے میں بھارت کے بڑے تعلیمی و رفاہی اداروں میں اپنا مقام حاصل کیا۔

 جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کی خصوصیات 
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم نہ صرف قرآنی، اسلامی اور عربی تعلیم پر توجہ دیتا ہے بلکہ جدید عصری تعلیم بھی فراہم کرتا ہے، جس کا دائرہ کے جی (KG) سے لے کر پی جی (PG) تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ادارہ مدارس کی دنیا میں "قدیم نافع اور جدید صالح" کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے، جو طلبہ کو دینی تشخص کے ساتھ عصری علوم سے بھی آراستہ کرتا ہے اور انھیں دنیا و آخرت کی کامیابی کے قابل بناتا ہے۔ جامعہ اشاعت العلوم نے نے اپنی تعلیمی کوششوں کے ذریعے سماجی تبدیلی کو فروغ دیا ہے اور مدارس کے بارے میں موجود منفی تصورات کو مثبت انداز میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جامعہ کا مقصد دینی و عصری علوم میں توازن اور امتزاج کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری ہے جو معاشرتی فلاح و بہبود میں عمدہ کردار ادا کر سکیں۔ یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ضروری حد تک عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے، جہاں ہر عالم اور فاضل طالب علم کو جماعت سوم کے ساتھ دسویں، پنجم کے ساتھ بارہویں اور دورہ حدیث شریف کے ساتھ بی اے، ڈی ایڈ اور ایل ایل بی جیسی اعلیٰ عصری تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ کو انگریزی، کمپیوٹر، عینک سازی، جلد سازی وغیرہ کی عملی تربیت بھی دی جاتی ہے۔

عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو جامعہ میں اسلامی تعلیمات کی بنیادی سمجھ اور ایک اسلامی ماحول فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ دین اور دنیا دونوں میں متوازن رہ سکیں۔ جامعہ اشاعت العلوم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مسلمان معاشرے کو زمانے کے حالات سے واقف علما، مؤثر داعی اور امت کا درد رکھنے والے ڈاکٹر، انجینئر، فارمیسسٹ، اساتذہ اور وکلا فراہم ہوں، جو مختلف شعبوں میں خلوص اور مخلصانہ انداز میں خدمات انجام دینے کا جذبہ رکھتے ہوں۔

 جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے شعبے
 اسلامی علوم کے شعبے
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم دینی علوم کے مختلف شعبہ جات فراہم کرتا ہے، جن میں شعبۂ دینیات، شعبۂ تحفیظ القرآن، شعبۂ تجوید و قراءت اور شعبۂ عالمیت و فضیلت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تخصصات میں تخصص فی الافتاء، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الدعوۃ و الارشاد، تخصص فی القراءات اور قسم اللغۃ العربیۃ و الانجلیزیۃ جیسے اہم شعبے شامل ہیں، جو طلبہ کو اعلیٰ دینی مہارتیں فراہم کرتے ہیں۔

 عصری تعلیم کے شعبے
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم نے 1993ء میں عصری تعلیم کے شعبے کا آغاز آئی ٹی آئی سے کیا، جس کے بعد بی یو ایم ایس میڈیکل کالج قائم کیا گیا۔ اس کے بعد اردو اسکول (پرائمری سے بارہویں جماعت تک سائنس کے ساتھ)، انجینئرنگ کالج (بی ای اور ڈپلوما انجینئرنگ)، فارمیسی کالج (بی فارمیسی، ڈی فارمیسی اور ایم فارمیسی)، بی ایڈ اور ڈی ایڈ کورسز اردو و مراٹھی زبان میں اور پھر ایم بی بی ایس میڈیکل کالج اور نرسنگ (جی این ایم) پروگرامز کا آغاز کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایل ایل بی پروگرام اور انگلش میڈیم اسکول (کے جی سے بارہویں جماعت تک) بھی متعارف کرائے گئے۔ حالیہ عرصے میں جامعہ نے اسٹیٹ پرائیویٹ یونیورسٹی کے قیام کی تیاریاں مکمل کی ہیں۔ علاوہ ازیں، دیگر کورسز میں آفس آٹومیشن، ٹیلرنگ، امبرائڈری، جلد سازی اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے پیشہ ورانہ شعبے بھی شامل ہیں۔

 جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کی سماجی خدمات 
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم نے نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ سماجی خدمات کے شعبے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس کے تحت ملک بھر میں 7500 سے زائد مساجد 12000 پانی کے لیے بورنگ سیکڑوں مدارس اسکول کالج وغیرہ کی تعمیر کا انتظام کیا گیا ہے، 2500 مکاتب قائم کیے گئے ہیں اور 34 ہسپتالوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ ستمبر 2021ء میں جامعہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیرِ نگرانی صوبہ مہاراشٹر کے 26ویں دار القضاء کا قیام عمل میں آیا۔

جامعہ کے زیرِ اہتمام انڈین انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اینڈ ریسرچ و نور ہسپتال، واروڈی بدناپور (ضلع جالنہ) کا قیام عمل میں آیا، جو مہاراشٹر کا پہلا مسلم اقلیتی میڈیکل کالج ہے اور میڈیکل کونسل آف انڈیا (MCI) سے منظور شدہ ہے۔ اس کالج کی تعمیر 2010ء میں شروع ہوئی اور 2013ء کے آخر تک مکمل ہوئی۔ کالج کے ساتھ 770 بستروں پر مشتمل نور ہسپتال قائم ہے، جہاں جدید طبی سہولتیں دستیاب ہیں اور روزانہ سینکڑوں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو معیاری طبی خدمات فراہم کرتا ہے۔
اس ادارے نے مختلف سماجی خدمات جیسے معذور افراد کے لیے وہیل چیئرز اور غریبوں کے لیے روزگار کے ذرائع بھی فراہم کیے ہیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر