اشاعتیں

جہاں نما کی سیر لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

داعئ اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب گرفتار:

تصویر

جہاں نما کی سیر، قسط نمبر ٥

تصویر
*جہاں نما کی سیر* قسط ⑤  ✏ فضیل احمد ناصری  *اجلاس کی اگلی کار روائی* نعت کے بعد مولانا شمشاد رحمانی صاحب کی تقریر ہوئی، جو آدھے گھنٹے تک چلی۔ ان کے بعد ایک بار پھر مقبول خوش گلو: جناب قاری شبیر احمد صاحب کو نظم پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے سیدنا حضرت معاویہؓ کی شان میں میری لکھی ہوئی منقبت پڑھی۔ منقبت خوانی کچھ اس شان کی تھی کہ حاضرین جھوم رہے تھے اور سر دھن رہے تھے۔ یہ منقبت ان کے پڑھنے کے بعد اب کافی مشہور ہو چکی ہے اور ہر جگہ سنی جا رہی ہے۔ *ڈاکٹر عبدالعلی فاروقی صاحب سے ملاقات* نظم خوانی شروع ہوئی تو برادرم مولانا مفتی شاکر نثار المدنی نے ڈاکٹر عبدالعلی فاروقی صاحب سے کہا کہ اس کلام کے موجد فضیل احمد ناصری اسٹیج پر موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مجھے پہلے سے جانتے تھے۔ میرا ایک مضمون *کھجناور کی سیر* مولانا ساجد کھجناوری کے توسط سے ان تک ایک برس قبل پہونچ چکا تھا، جس پر ان کا تبصرہ کچھ یوں تھا:  *مولانا فضیل صاحب کے رنگین قلم سے لکھا گیا درج بالا مختصر "سفر نامہ کھجناور" آپ کی محبت اور عنایت سے پڑھنے کوملا ۔ دو فائدے نقد ہوئے: اول کھجناور کا املا درست ہوا، اب ...

جہاں نما کی سیر، قسط نمبر ٤

تصویر
*جہاں نما کی سیر* قسط ④  ✏ فضیل احمد ناصری  *بیت العلوم کا سالانہ اجلاس* جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میری یہ حاضری اجلاس کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ یہ بیت العلوم کا 80 واں سالانہ اجلاس تھا، جس کا اولین سرا حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے دورِ اہتمام سے جڑا ہوا تھا۔ یہاں کا اجلاس بڑا امتیازی اور ہجوم انگیز ہوتا ہے۔ پہلے تو یہ تین تین روز تک متواتر چلتا تھا، ادھر ایک دو برس سے دو روزہ ہو رہا ہے۔ ان اجتماعات میں ملک کے طول و عرض سے بڑے بڑے علما کو مدعو کیا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ، مولانا ابو الوفا شاہ جہاں پوریؒ، حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ اور قاری سید صدیق احمد باندویؒ متعدد بار ان جلسوں کو رونق بخش چکے ہیں۔ یہ اجلاس ہر دور میں مقبول رہا۔ جس زمانے میں سڑکیں خراب تھیں اور راستے پل صراط کا منظر پیش کرتے تھے، اس وقت بھی عوام کی گرویدگی کا عالم یہ تھا کہ سامعین دور دراز سے بیل گاڑیوں میں سوار ہو کر اس میں شرکت کرتے۔ پورے اہلِ خانہ اور مکمل لاؤ لشکر کے ساتھ۔ زادِ راہ کے پورے انتظامات بھی رکھتے۔ اس اجلاس کی ایک تاریخی حیثیت یہ بھی ہے کہ فقیہ الامت حضرت مولانا مف...

جہاں نما کی سیر، قسط نمبر ٣

تصویر
*جہاں نما کی سیر* قسط ③  ✏ فضیل احمد ناصری  *بیت العلوم میں ہماری عزت افزائی* ہماری گاڑی دفترِ اہتمام والے احاطے میں رکی۔ یہ احاطہ پھول پھلواریوں اور خوش نما درختوں سے آباد ہے۔ ہم گاڑی سے اترے تو خیرمقدم پر مامور طلبہ ہماری طرف دوڑے۔ ہمیں مہمان خانہ لے جایا جا رہا تھا کہ سامنے ایک نوجوان اور وجیہ چہرہ نظر آیا۔ کشیدہ قامت۔ دوہرا بدن۔ قابلِ رشک صحت۔ اس نے بڑھ کر مصافحہ بھی کیا اور معانقہ بھی۔ یہ مولانا مفتی اجود اللہ پھول پوری تھے۔ مفتی عبداللہ پھول پوریؒ کے دوسرے نمبر کے فرزند اور شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے حفدِ حفید۔ بیت العلوم کے نائب ناظمِ تعلیمات اور نائب ناظم بھی یہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارا تعارف تو بہت تھا، مگر دید وا دید کا پہلا موقع یہیں میسر آیا۔ شکل و صورت دیکھ کر مجھے اتنا تو یقین تھا کہ مفتی صاحبؒ کے صاحب زادگان میں سے کوئی ہیں، لیکن باتشخص تعارف نہ ہونے سبب سے متعین نہ کر سکا۔ ہم مہمان خانے کی طرف بڑھے اور وہ اپنی مصروفیات میں لگ گئے۔  مہمان خانے پہونچے تو دو طلبہ رضا کار ہمارے لیے کھڑے تھے۔ خاطر داری اور سہولیات بہم پہونچانے میں کوشاں۔ پہونچت...

جہاں نما کی سیر، قسط نمبر ٢

تصویر
*جہاں نما کی سیر* قسط ②  ✏ فضیل احمد ناصری  *مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم کا تعارف* مدرسہ بیت العلوم کا نام میں بہت پہلے سے سنتا آ رہا تھا۔ اس سے نادیدہ طور پر ہی محبت بھی ہو چکی تھی۔ کیوں نہ ہو، یہ گلشن شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کا لگایا ہوا ہے۔ وقت کا حکیم و مجدد اس کا سرپرستِ اول رہا۔ مدرسہ پہونچا تو دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ یہ ادارہ میرے طے کردہ اندازے سے کافی بڑا تھا۔ خوب صورت عمارتیں۔ فلک بوس تعمیرات۔ انوار و برکات سے نہائی ہوئی دیواریں۔ سفید و براق۔ ہری بھری پھلواریاں۔   یہ مدرسہ اعظم گڑھ کے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کا رقبہ 12 بیگھے سے کچھ زائد ہے۔ اس وقت یہاں لگ بھگ 2700 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ عربی درجات کے ساتھ حفظ اور دینیات کے بھی شعبے ہیں۔ عربی درجات فارسی سے دورۂ حدیث تک ہیں۔ تکمیلِ ادب اور تکمیلِ افتا کے ساتھ تخصص فی الحدیث بھی قائم ہے۔ دینیات کا نظامِ تعلیم درجۂ اطفال سمیت چھ سالہ نصاب پر مشتمل ہے، جس میں اردو عربی کے ساتھ عصری علوم کا نظم بھی ہے۔ تعلیم اتنی ٹھوس کہ طلبہ پانچویں جماعت پڑھ کر ہندی میڈیم اور انگلش میڈیم میں بہ آسانی داخلہ ل...

جہاں نما کی سیر، قسط نمبر ١

تصویر
*جہاں نما کی سیر* قسط ①  ✏ فضیل احمد ناصری  گزشتہ دنوں میرے عزیز مولانا قاری شبیر احمد مظفر پوری نے فون کیا کہ آپ کو ہمارے ادارے کے جلسے میں تشریف لانا ہے۔ ملکی فضا کے پیشِ نظر میں نے سرِ دست ہوں ہاں کر دیا۔ اگلے دن پھر فون آیا کہ حضرت! آپ ضرور تشریف لائیں! آپ کی آمد سے میرا حوصلہ بڑھے گا۔ آپ کی نظمیں آپ کی موجودگی میں پڑھوں گا تو میری ہمت بڑھ جائے گی اور لطف دوبالا ہو جائے گا۔ میں نے پھر گول مول سا جواب دے دیا۔ در اصل میرا ارادہ نفی کا ہی تھا، لیکن قاری صاحب نے پھر اگلے دن فون کر کے مجھے قائل کرنا چاہا، میں نے ان کی خواہش کے احترام میں کھل کر ہامی بھر لی۔ قاری شبیر صاحب دارالعلوم وقف کے فاضل ہیں۔ وطنی تعلق بہار سے رکھتے ہیں۔ اس وقت اعظم گڑھ کے تاریخی ادارے: مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں شعبۂ تجوید کے مدرس ہیں۔ آواز بلا کی ہے۔ نعت خوانی اور نظمیں پیش کرنے میں استاد ہیں۔ ترنم غضب کا ہے۔ اپنی حسین آواز اور اس کے زیر و بم سے مجلس پر ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ سامعین ان کے نغموں پر گوش بر آواز رہتے ہیں۔ قاری صاحب میری نظموں کے بڑے دل دادہ ہیں۔ کوئی کہیں سے ہاتھ لگ جائے تو ...