اشاعتیں

naat sher o shayri لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی ہمارے عہد کی عظیم شخصیت

تصویر
حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی : ہمارے عہد کی عظیم شخصیت : از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری سابق استاذ دارالعلوم دیوبند : سفیرِ تصوف، تحریکِ ارشاد، الہامِ اصلاح، واعظِ روح، خطیبِ قلب، دوائے دل، بہارِ سلوک، انجمنِ تزکیہ، موسوعۂ معرفت، انقلابِ باطن، لسانِ صوفیا، قلمِ حقائق، کاشفِ اسرار، کاتبِ انوار، شارحِ دقائق، مفسرِ رموز، فاتحِ عقبات، دست گیر راہ، مشکِ عرفان، طلسمِ تقریر، سحرِ بیان، حضرت پیر فقیر ذوالفقار نقشبندی آج رحمہ اللہ ہو گئے۔ غالبا دو ہزار ایک کی بات ہے، راقم دارالافتا کا طالب علم تھا، ایک روز درس گاہ میں ایک کتاب نظر آئی، کتاب تو میں کیا ہی دیکھتا! مصنف کا نام مقناطیس بن گیا، پیشانی پر مرقوم "پیر فقیر" بالکل غیر روایتی معلوم ہوا تھا، فہرست نارمل جا رہی تھی؛ یہاں تک کہ ایک عنوان گلے پڑ گیا، اس کے الفاظ یہ تھے: "ہڑتال فقط جانچ پڑتال"، یہ سرخی بد نگاہوں کا سچا آئینہ تھی، میں اس کی ندرت کا شکار ہوا، پڑھنے گیا تو صاحبِ کتاب نے ایک نیا قاری دریافت کر لیا تھا، مجھے یہاں بلا کی ذہانت ملی، انھوں نے اصلاح کے ایک نکتے کو مزے دار، زندہ، ہم عصر اور تازہ ب...

احتجاجی غزل

تصویر
------۔ احتجاجی غزل --------- بتناظر جامعہ ملیہ اسلامیہ و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جانبازوں کے جذبات پر  کامران غنی صباؔ امیرِ شہر کی مسند پہ اُس کے بام پہ تھُو وہ جس مقام سے گزرے ہر اُس مقام پہ تھُو لکھوں گا تھوک سے فرعونِ وقت نام ترا اور اُس پہ تھوک کے بولوں گا تیرے نام پہ تھُو مجھے قبول نہیں ہے نظامِ نو تیرا ہزار بار کہوں گا ترے نظام پہ تھُو وہ جس کو پی کے لہو میں کوئی اُبال نہ ہو اُٹھا کے پھینک دو ایسے ہر ایک جام پہ تھُو مرے لہو کے چراغوں سے جو نہ روشن ہو تو ایسی شام پہ لعنت، تو ایسی شام پہ تھُو صباؔ یہ وقت نہیں ہے کہ بات حُسن کی ہو لہو نہ گرم ہو جس سے ہر اُس کلام پہ تھُو

دربار میں حاضر ہے اک بندہ آوارہ

تصویر
کلام مفتی تقی عثمانی صاحب دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا سرگشتہ و درماندہ ۔۔۔ بے ہمت و ناکارہ وارفتہ و سرگرداں۔۔ بے مایہ و بے چارہ شیطاں کا ستم خوردہ ۔۔ اس نفس کا دکھیارا ہر سمت سے غفلت کا ۔۔۔ گھیرے ہوئے اندھیارا دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ جذبات کی موجوں میں ۔۔۔ لفظوں کی زباں گم ہے عالم ہے تحیر کا ۔۔۔ یارائے بیاں گم ہے مضمون جو سوچا تھا ۔۔۔ کیا جانے کہاں گم ہے آنکھوں میں بھی اشکوں کا ۔۔۔ اب نام و نشاں گم ہے سینے میں سلگتا ہے ۔۔۔ رہ رہ کے اک انگارہ دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ آیا ہوں ترے در پر ۔۔۔ خاموش نوا لے کر نیکی سے تہی دامن ۔۔۔ انبارِ خطا لے کر لیکن تری چوکھٹ سے ۔۔۔ امیدِ سخا لے کر اعمال کی ظلمت میں ۔۔۔ توبہ کی ضیا لے کر سینے میں تلاطم ہے ۔۔۔ دل شرم سے صدپارہ دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ امید کا مرگز ہے ۔۔۔ رحمت سے بھرا گھر ہے اس گھر کا ہر اک ذرہ ۔۔۔ رشکِ مہ و اختر ہے محروم نہیں کوئی ۔۔۔ جس در سے یہ وہ در ہے جو اس کا بھکاری ہے ۔۔۔ قسمت کا سکندر ہے یہ نور کا قلزم ہے ۔۔۔ یہ امن ...