ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

جہاں نما کی سیر، قسط نمبر ٤

*جہاں نما کی سیر*
قسط ④ 

✏ فضیل احمد ناصری 

*بیت العلوم کا سالانہ اجلاس*

جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میری یہ حاضری اجلاس کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ یہ بیت العلوم کا 80 واں سالانہ اجلاس تھا، جس کا اولین سرا حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے دورِ اہتمام سے جڑا ہوا تھا۔ یہاں کا اجلاس بڑا امتیازی اور ہجوم انگیز ہوتا ہے۔ پہلے تو یہ تین تین روز تک متواتر چلتا تھا، ادھر ایک دو برس سے دو روزہ ہو رہا ہے۔ ان اجتماعات میں ملک کے طول و عرض سے بڑے بڑے علما کو مدعو کیا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ، مولانا ابو الوفا شاہ جہاں پوریؒ، حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ اور قاری سید صدیق احمد باندویؒ متعدد بار ان جلسوں کو رونق بخش چکے ہیں۔ یہ اجلاس ہر دور میں مقبول رہا۔ جس زمانے میں سڑکیں خراب تھیں اور راستے پل صراط کا منظر پیش کرتے تھے، اس وقت بھی عوام کی گرویدگی کا عالم یہ تھا کہ سامعین دور دراز سے بیل گاڑیوں میں سوار ہو کر اس میں شرکت کرتے۔ پورے اہلِ خانہ اور مکمل لاؤ لشکر کے ساتھ۔ زادِ راہ کے پورے انتظامات بھی رکھتے۔ اس اجلاس کی ایک تاریخی حیثیت یہ بھی ہے کہ فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ نے ردِ مودودیت کے خلاف عشا کے بعد تقریر شروع کی تو فجر تک کھینچ کر لے گئے۔ یہ تقریر اس قدر مدلل و مربوط تھی کہ اہلِ علم جھوم جھوم اٹھے۔ فقیہ الامتؒ اپنے ساتھ ایک گاڑی کتابیں بھی لے کر آئے تھے۔ مودودیت کے خلاف جتنی بھی باتیں کہیں اسٹیج پر لائی گئی کتب سے ہاتھوں ہاتھ ان کے حوالے بھی پیش کیے۔ جانشینِ شیخ الاسلام حضرت مولانا اسعد مدنیؒ صاحب نے بیت العلوم ہی کے اجلاس میں مودودیت پر اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا تھا: میں صاف صاف کہتا ہوں کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی پوری جماعت ضال ہے، مضل ہے۔ گم راہ ہے، گم راہ کن ہے۔ ان اجلاسات کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اطراف میں پھیلے ہوئے مودودیت کے جراثیم نیست و نابود ہو کر رہ گئے۔ ورنہ کبھی یہ عالم تھا کہ سرائے میر ہی کیا، پورے اعظم گڑھ میں اس کی طوطی بولتی تھی۔

یہ سارے جلسے بیت العلوم کے احاطے میں موجود شہر کی عیدگاہ میں ہوتے رہے ہیں۔ جلسے کا نظام اتنا مربوط و مرتب ہوتا ہے کہ بعد میں کسی ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں رہتی۔ مقررین کے لیے وقت کی تحدید پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔ کسی کے لیے ایک گھنٹہ، کسی کے لیے پون گھنٹہ اور کسی کے لیے آدھ گھنٹہ ۔ ہر مقرر وقت پر ہی اپنی بات پوری کر لیتا ہے۔

*مولانا عبدالبر اعظمی صاحب سے ملاقات*

 اجلاس عشا کے بعد شروع ہونا تھا۔ ابھی ہم کھانا کھا کر بیٹھے ہی تھے کہ اچانک محترم جناب مولانا عبدالبر صاحب تشریف لے آئے۔ یہ شیخ عبدالحق اعظمیؒ کے تیسرے محل سے سب سے بڑے صاحب زادے ہیں۔ بیت العلوم ہی میں سالہا سال سے مدرس ہیں۔ ساری تعلیم دارالعلوم دیوبند میں پائی۔ فراغت 1996 کے اواخر میں ہے۔ بڑے باصلاحیت اور ژرف نگاہ عالم ہیں۔ قدیم مراجع و مآخذ سے براہِ راست استفادہ کرتے ہیں۔ تصلب پسند دیوبندی ہیں۔ قدیم خاندانی مراسم کی بنا پر میرے لیے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے چھوٹے چچا حضرت مولانا حسین احمد ناصری مدظلہ نے انہیں اپنی آغوش میں کھلایا ہے۔ دارالعلوم میں میں نے ان کا زمانہ ضرور دیکھا، مگر تعارف کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ پاسبانِ علم و ادب کے توسط سے ادھر چند سالوں سے باہم مربوط ہیں۔ سوشل میڈیا پر باتیں بھی ہیں اور فون پر رابطے بھی، تاہم ان سے ملاقات ہنوز نہ ہو سکی تھی ۔ بقول شاعر: 

گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں   سامنا   نہیں  ہوتا

میری آمد کی اطلاع انہیں پہلے ہو چکی تھی۔ بڑے خوش تھے۔ وہ آئے تو گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ معانقہ ہوا۔ دیر تک باتیں ہوئیں۔ برادرانہ جذبات کا بھرپور تبادلہ ہوا۔ مجھے لگا کہ اپنے بچھڑے ہوئے بھائی سے ملاقات کر رہا ہوں۔ میانہ قد۔ دوہرا بدن ۔ کشادہ جبیں۔ بڑی آنکھیں۔  میانہ قد۔ دوہرا بدن ۔ کشادہ جبیں۔ بڑی آنکھیں۔ بات میں سادہ، معانی میں دقیق۔ ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہوئیں۔ بڑے خوش طبع اور بذلہ سنج نظر آئے۔

*اجلاس میں شرکت*

قاری شبیر احمد صاحب گو کہ مصروف تھے، مگر گاہے بگاہے وقت نکال کر مزاج پرسی کر جاتے تھے۔ انہیں مختلف نشستوں میں میری لکھی ہوئی حمدیں، نعتیں اور منقبتیں پڑھنی تھیں۔ اجلاس شباب پر آیا تو وہ مجھے لینے کے لیے تشریف لے آئے۔ ہم اسٹیج پر پہونچے تو اس وقت چند نئی کتابوں کی رسمِ اجرا چل رہی تھی۔ ان میں سے کچھ کتابیں بانئ بیت العلوم کی تھیں اور چند حضرت مفتی عبداللہ پھول پوریؒ صاحب کی۔ اجلاس کی نظامت مولانا محبوب عالم صاحب کر رہے تھے۔ صاف ستھری اور نکھری نظامت ۔ الفاظ کا حسین انتخاب۔ تراشیدہ و دل کش استعارے۔ موقع بہ موقع اشعار۔ بے باکی و بے خوفی ان پر غالب تھی، ورنہ تو اچھے اچھے نظما کو لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں انہیں کے پہلو میں بیٹھ گیا۔


رسمِ اجرا کے بعد قاری شبیر احمد صاحب کو آواز دی گئی۔ وہ خانوادهٔ پھول پوریؒ پر لکھی ہوئی میری منقبت کے لیے اسٹیج پر آئے اور حسبِ سابق چھا گئے۔ مجمع پر ایک سناٹا تھا۔ *کان الطیر علیٰ رؤسہم* کا منظر پیش کر رہا تھا۔ پھر ایک مہمان مقرر کی تقریر ہوئی۔ اس کے بعد ادارے ہی کے ایک طالبِ علم نے حمد پڑھی۔ اس نے بھی اپنی خوش گلوئی سے پوری مجلس لوٹ لی۔

[اگلی قسط میں پڑھیں: اجلاس کی اگلی کار روائیاں]

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر