حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی ہمارے عہد کی عظیم شخصیت

تصویر
حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی : ہمارے عہد کی عظیم شخصیت : از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری سابق استاذ دارالعلوم دیوبند : سفیرِ تصوف، تحریکِ ارشاد، الہامِ اصلاح، واعظِ روح، خطیبِ قلب، دوائے دل، بہارِ سلوک، انجمنِ تزکیہ، موسوعۂ معرفت، انقلابِ باطن، لسانِ صوفیا، قلمِ حقائق، کاشفِ اسرار، کاتبِ انوار، شارحِ دقائق، مفسرِ رموز، فاتحِ عقبات، دست گیر راہ، مشکِ عرفان، طلسمِ تقریر، سحرِ بیان، حضرت پیر فقیر ذوالفقار نقشبندی آج رحمہ اللہ ہو گئے۔ غالبا دو ہزار ایک کی بات ہے، راقم دارالافتا کا طالب علم تھا، ایک روز درس گاہ میں ایک کتاب نظر آئی، کتاب تو میں کیا ہی دیکھتا! مصنف کا نام مقناطیس بن گیا، پیشانی پر مرقوم "پیر فقیر" بالکل غیر روایتی معلوم ہوا تھا، فہرست نارمل جا رہی تھی؛ یہاں تک کہ ایک عنوان گلے پڑ گیا، اس کے الفاظ یہ تھے: "ہڑتال فقط جانچ پڑتال"، یہ سرخی بد نگاہوں کا سچا آئینہ تھی، میں اس کی ندرت کا شکار ہوا، پڑھنے گیا تو صاحبِ کتاب نے ایک نیا قاری دریافت کر لیا تھا، مجھے یہاں بلا کی ذہانت ملی، انھوں نے اصلاح کے ایک نکتے کو مزے دار، زندہ، ہم عصر اور تازہ ب...

رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے لڑکی کا آپس میں بات کرنا


کیا فرماتے ہیں علماءکرام ومفتیان عظام اس درج ذیل مسئلہ میں 

اگر کسی لڑکے کا کسی لڑکی سےرشتئہ نکاح طئے ہوجائے تو کیا وہ لڑکی اس لڑکے کے لئے نامحرم رہتی ہے یا محرم 
یعنی کہ وہ لڑکا اس لڑکی سے غیر ضروری بات کرسکتا ہے؟ وہ لڑکا اس لڑکی کے والدہ کے سامنے آسکتاہے؟  
براہ کرم اس مسئلہ کی مکمل وضاحت باحوالہ فرمائے

جواب نمبر 837
الجواب وباللہ التوفيق :
 کسی لڑکی سے اگر شادی کی نسبت طے ہوجائے تو شرعی لحاظ سے یہ دراصل نکاح کے وعدہ کی حیثیت رکھتی ہے،محض اس کی وجہ سے شرعا نکاح منعقد نہیں ہوتا جب تک کہ گواہوں کے روبرو قاعدہ شرعی کی روشنی میں ایجاب و قبول نہ کرلیا جائے، کسی لڑکی سے نسبت طے ہوجانے سے لڑکا لڑکی کا شوہر نہیں قرار پاتا، شرعا دونوں ایک دوسرے کے لئے اس وقت تک اجنبی ہیں جب تک دونوں کا عقد نکاح نہ ہوجائے چناچہ نکاح سے قبل لڑکا لڑکی کا آپس میں ملنا جلنا اور روبرو باہم بات چیت کرنا بلا ضرورت شرعی جائز نہیں،اسی طرح موجودہ حالات کے تناظر میں بربنائے احتیاط فون اور انٹرنٹ کے ذریعہ گفتگو کرنا درست نہيں-در مختار ج5،كتاب الحظر والاباحة،فصل في النظر والمس، ص 260،میں ہے: 
ولا يكلم الاجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا انتهى.وبه بان أن لفظة لا في نقل القهستاني: ويكلمها بما لا يحتاج إليه زائدة، فتنبه فقط واللہ اعلم بالصواب

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

مال اور عہدہ کی چاہت

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر