حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی ہمارے عہد کی عظیم شخصیت

تصویر
حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی : ہمارے عہد کی عظیم شخصیت : از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری سابق استاذ دارالعلوم دیوبند : سفیرِ تصوف، تحریکِ ارشاد، الہامِ اصلاح، واعظِ روح، خطیبِ قلب، دوائے دل، بہارِ سلوک، انجمنِ تزکیہ، موسوعۂ معرفت، انقلابِ باطن، لسانِ صوفیا، قلمِ حقائق، کاشفِ اسرار، کاتبِ انوار، شارحِ دقائق، مفسرِ رموز، فاتحِ عقبات، دست گیر راہ، مشکِ عرفان، طلسمِ تقریر، سحرِ بیان، حضرت پیر فقیر ذوالفقار نقشبندی آج رحمہ اللہ ہو گئے۔ غالبا دو ہزار ایک کی بات ہے، راقم دارالافتا کا طالب علم تھا، ایک روز درس گاہ میں ایک کتاب نظر آئی، کتاب تو میں کیا ہی دیکھتا! مصنف کا نام مقناطیس بن گیا، پیشانی پر مرقوم "پیر فقیر" بالکل غیر روایتی معلوم ہوا تھا، فہرست نارمل جا رہی تھی؛ یہاں تک کہ ایک عنوان گلے پڑ گیا، اس کے الفاظ یہ تھے: "ہڑتال فقط جانچ پڑتال"، یہ سرخی بد نگاہوں کا سچا آئینہ تھی، میں اس کی ندرت کا شکار ہوا، پڑھنے گیا تو صاحبِ کتاب نے ایک نیا قاری دریافت کر لیا تھا، مجھے یہاں بلا کی ذہانت ملی، انھوں نے اصلاح کے ایک نکتے کو مزے دار، زندہ، ہم عصر اور تازہ ب...

بات پرانی (اکابر دیوبند کے حالات) قسط ٠١

سمپوزیم ..اسلام اور عصرحاضر ۔۔۱۳-اپریل ۱۹۷۷۔ مولانا احمد سجاد قاسمی
 مجلس کا تیسرا فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کی نظم ترانہ دارالعلوم جوانکے مجموعہ کلام میں مقید ہے اسے ہم بحیثیت ترانہ دارالعلوم سمپوزیم میں اس طرح پیش کریں کہ دارالعلوم دیوبند کے ہر اجلاس میں طلبہ پڑھنے کے لیے مجبور ہو جائیں اور عملی طور پر پر وہ دارالعلوم کا ترانہ بن جاے ۔اب یہ بڑا مسئلہ بن گیا کہ اسے پیش کر نے کا کیا طریقہ ہو۔ہم میں کوئی نعت خواں یا صاحب ترنم تو تھا نہیں ۔پھر بھی یہ خیال تھا کہ نعت یا غزل کا ترنم ترانہ کو مجروح کر دیگا ۔اسی حیص بیص میں سب مبتلا تھے کہ اچانک سعید بھائی کی رگ حمیت پھڑکی انہوں نے پورے اعتماد سے کہا کون سا ایسا کام ہے جسے رفقاء ثقافت نہیں کر سکتے ہیں ۔ترانہ کیلئے میں اسلام بھائی اور سجاد کافی ہیں ۔طرز بنا لیں گے اور مشق کریں گے اور انشاءاللہ اچھے طریقے سے پیش کریں گے ماشااللہ سبھی صاحب ذوق ہیں ۔اگلے دن سے محنت شروع کردی گئی ۔الداعی کا دفتر جہاں ہم سبھوں کا جماوڑا ہوتا تھا اسلام بھائی جب تک الداعی کے کاموں میں مصروف ہوتے ہماری مشغولیات متنوع تھیں ۔شعر و شاعری بھی ہوتی تنقید و تبصرے بھی ہوتے اور مختلف کھیل بھی کھیلے جاتے ۔محفل نشینوں میں اسلام بھائی کے ساتھ میں کلیم بھائی سعید بھائی شفقت گیاوی اور انعام بھائی پینٹر ہوتے تھے ۔اس مجلس میں ہم لوگوں نے ترانے کی مشق شروع کی۔ابتدا میں تو پڑھنے والا پڑھ کر خود قہقہے لگاتا سننے والے بھی کھلیاں اڑانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے ۔دو تین دنوں بعد سب سیریس ہو گئے کوئی شعر ایک آدمی پڑھتا باقی لوگ فیصلہ کرتے اس جگہ روانی ہونی چاہیے اور فلاں جگہ کشش ۔سب باری باری پڑھتے اتار چڑھاؤ پر دھیان دیتے ایک ہی شعر کو بیسیوں مرتبہ پڑھا جاتا اور تینوں ساتھ مشق کرتے ۔آخر کار ہمیں مکمل کامیابی حاصل ہو گئی ۔۔ان تینوں بے سروں نے مل کر ترانہ کو ایسا سر دیا کہ آج تک دارالعلوم دیوبند کے ہر اجلاس میں اسی سر کے ساتھ پابندی سے پڑھا جاتا ہے۔ *جمعیۃ الثقافۃ القاسمیۃ ہم نے 1975کے شروع میں جمعیۃ الثقافہ القاسمیۃ نام ایک انجمن قائم کی۔محدودے چند سرپھرے احباب جو چند خصوصیات میں مشترک تھے لیکن ساتھ ہی اپنی ذہانت علمی استعداد تحریری صلاحیت وسعت مطالعہ اور فکر و شعور کی تازگی میں نمایاں مقام رکھتے تھے جنکی تعداد چار پانچ تھی سر جوڑ کر بیٹھے اور بیٹھ کر اس انجمن کی بنیاد ڈال دی۔۔ فرشتے سوچتے ہی رہ گئے انجام ہستی کو۔ دل ناداں اٹھا اور اٹھ کے بنیاد جہاں رکھ دی۔ اس انجمن کے مقاصد عظیم اور بلند ترین تھے ۔مثلا علوم قاسمیہ کو خاطر خواہ طریقے سے سمجھنا ۔قیام دارالعلوم کے پس منظر اور بنیادی مقاصد کو جاننا ۔اسلامی ثقافت کو عام کرنا ۔صحافت کی صحیح پہچان کرنا ۔مطالعہ میں وسعت پیدا کرنا ۔تحریر کی مشق کرکے اس میدان میں اپنے کو اونچا اٹھانا ۔جدید مسائل پر غور وفکر کرنا ۔نئے دور کے تقاضوں کو سمجھنا افہام و تفہیم کے بہتر طریقے کو بروئے کار لانا وغیرہ ۔ یہ چار پانچ آزاد منش طالب علم تھے محمد اسلام دمکوی کلیم اللہ فیض آبادی احمد سجاد قاسمی احمد سعید فیض آبادی جمیل الرحمن پرتاب گڑھی ۔بعد میں لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ۔ابو الہاشم اعظمی شفقت گیاوی صلاح الدین میرٹھی بدر الزماں کیرانوی نسیم اختر شاہ شاہد فیض آبادی وغیرہ ۔ ہم نے اپنی اس انجمن کے لیے حضرت مولانا حامد الانصای غازی صاحب سے درخواست کی کہ وہ ہماری رہنمائی اور سر پرستی کی ذمہ داری قبول فرمائیں ۔۔ہم جانتے تھے ایک زمانے میں ہندوستان کا معتمد اور مشہور اخبار مدینہ بجنور سے نکلتا تھا غازی صاحب اسکے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے ۔معرکۃ الآرا کتاب اسلام کا نظام حکومت جسے ندوۃ المصنفین دہلی نے شائع کیا تھا غازی صاحب کی تصنیف کردہ ہے۔بمبئی شہر میں علمی اور دینی تحریکوں کا مرکز نگاہ غازی صاحب رہا کرتے تھے اور ساتھ ہی دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے اہم رکن اور اس وقت اجلاس صد سالہ دارالعلوم دیوبند کے روح رواں ہونے کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ کے ایک کمرے قیام فرماتے تھے ۔برج شمالی تحتانی والا کمرہ انجمن کا دفتر تھا ۔جسے صاف ستھرا کرکے خوش نما اور دیدہ زیب فرش وڈیسک سے مزین کرلیا گیا تھا ۔اکثر ہم لوگ باہر سے تشریف لانے والے اہل علم اور صاحب قلم حضرات دفتر میں مدعو کرلیا کرتے تھے جن سے ہم رفقاء ثقافت استفادہ کرتے ۔۔۔ (جاری)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

مال اور عہدہ کی چاہت

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر