بزم شعور قسط ۲
(احاطہ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ایام 72-1971ء)
احمد سجاد قاسمی
شعور کے اداریے میں ہم لوگوں کے خیال میں کوئی خاص بات نہیں تھی ۔صرف اتنا لکھا گیا تھا کہ دارالعلوم ایک خالص علمی ادارہ ہے اس عالمی شہرت یافتہ ادارہ کا کسی خاص تنظیم یا جماعت اور جمعیت سے ہی کوئ رشتہ نہیں بلکہ اس کے ماننے والوں میں اور اسکے فضلاء میں مختلف تنظیموں اور جماعتوسے تعلق رکھنے والے افراد ہیں ۔کسی سیاسی یا نیم سیاسی جماعت کی ممبر سازی اندرون دارالعلوم بہت اچھا عمل نہیں ہے ۔علمی تعلیمی اور تربیتی چہل پہل ہی دارالعلوم کا طرہ امتیاز ہے ۔۔۔۔ہمارے تین اساتذہ کرام نے شعور سے منسلک افراد کے خلاف اپنے ہر درس سے پہلے ماحول بنانا شروع کر دیا ۔اور طلباء کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی کہ ابھی دارالعلوم میں کچھ طلباء مودودی ہیں ان سے دارالعلوم دیوبند کو پاک کرنا ہم سبھی کا فریضہ ہے ۔ہمارے ان اساتذہ کرام میں ایک حضرت مولانا وحید الزمان صاحب کیرانوی تھے جو ہم طلباء میں کافی مقبول بلکہ محبوب تھے ۔آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ طلباء انکی رفتار اور گفتار کی نقلیں اتارتے تھے ۔طلباء کی تربیت انکی حوصلہ افزائی انکا وظیفہ تھا ۔آپ نفاست پسند اور مہذب استاذ تھے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو نفاست پسندی اور خوش سلیقگی کی تربیت دیتے ۔عربی زبان و ادب کے مایہ ناز استاذ تھے ۔انکے فیض یافتہ ہزاروں فضلاء ملک اور بیرون ملک خاص مقام بنا چکے ہیں ۔خود بزم شعور کے رفقاء میں مولانا ندیم الواجدی اور عبد الستار سلام مراد آبادی انکے خاص ترتیب یافتہ تھے جو عربی زبان و ادب اور اسلوب پر مکمل دسترس رکھتے تھے ۔النادی الادبی کے معتمد تھے خود حضرت الاستاذ ان سے محبت و شفقت سے پیش آتے تھے ۔مگر جماعتی تشدد نے حضرت کو سب کچھ نظر انداز کرنے پر مجبور کردیا ۔۱۹۷۱ء میں میں نے مفتاح العلوم مئو میں دورہ حدیث پڑھا تھا ۔۱۹۷۲ء میں دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا وحید الزمان صاحب سے عربی زبان و ادب پڑھنے کی غرض سے حاضر ہوا تھا لیکن اسی سال قانون بن گیا کہ دارالعلوم کے فاضل کا ہی تخصص کے درجات میں داخلہ ہوسکتا ہے ۔لہذا مجھے دورہ حدیث میں داخلہ لینا پڑا ۔کچھ دنوں حضرت کے اسباق میں شامل بھی ہوا ۔تفریح کے دوران آپ سے استفادہ بھی کیا ۔۔۔
دوسرے استاذ گرامی حضرت مولانا انظر شاہ صاحب تھے جو دورہ حدیث کے بہت ہی مقبول استاذ تھے اپنے وقت کے ہندوستان کے مایہ ناز خطیب تھے طلبہ دارالعلوم آپ کی تقریروں کے عاشق تھے ۔
تیسرے استاذ گرامی حضرت مولانا ریاست علی بجنوری تھے ۔اپنی نیک نفسی شگفتہ مزاجی کی وجہ سے طلباء کے بہت ہی پسندیدہ استاذ تھے ۔
ان حضرات کی تقریروں نے اور کوششوں نے دارالعلوم میں رفقاء بزم شعور کو اس قدر معتوب کردیا کہ دارالعلوم کے عام طلباء ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہمارے دوست احباب کھلے میں ملنے سے پرہیز کرنے لگے ۔ہمارے اخراج کے لیے کوشش ہونے لگی ہمارے سبھی رفقاء اپنے اپنے ضلعی انجمن کے صدر ناظم یا رسالوں کے ایڈیٹر تھے ۔النادی الادبی کے معتمد اور مختلف عربی رسالوں کے مدیر تھے سبھوں کو تمام عہدوں سے استعفی دینا پڑا ۔ایک میں ہی سخت جان نکلا جس نے اپنے ضلعی، صوبائی اور جامعہ طبیہ کی صدارت، نظامت یا ایڈیٹری استعفی نہیں دیا۔۔
ہم لوگوں نے مہتمم دارالعلوم حضرت قاری محمد طیب صاحب کو اداریے کا مسودہ اور شعور یا وجدان کی فائلیں دکھائیں ۔تمام اراکین مجلس شوری کو صحیح صورت حال سے تحریری طور پر مطلع کیا ۔۔۔اس طرح محنت اور دوڑ دھوپ سے ہم نے اپنے رفقاء کو اخراج سے بچا لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں