ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

اگر آپ یوپی میں ہیں تو.....

اگر آپ یوپی میں ہیں تو.... 


مفتی غلام رسول قاسمی


آپ ملک کی سب سے زیادہ گھنی آبادی والی ریاست یوپی میں ہیں اور آپ کا اکثریتی فرقہ سے تعلق نہیں ہے تو آپ کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے، کبھی راتوں رات ظلم اور جرم کو چھپانے کے لئے ریپ شدہ مردہ لاش کو جلوا دیا جائے گا، کبھی زنا بالجبر کے بعد زندہ بچ گئی لڑکی کا عدالت سے لوٹتے ہوے ایکسیڈنٹ کروایا جائے گا، کبھی خبر کی تحقیق و رپورٹ کے لیے جا رہے صحافیوں پر یو اے پی اے جیسا سخت قانون لاگو کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا، کبھی مجرم کی زبان سے حکومت کا گھناؤنی چہرہ سامنے آنے سے قبل ہی گاڑی کو پلٹوا دیا جائے گا، کبھی این آر سی اور سی اے اے قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر گولیوں سے چھلنی کروا دیا جائے گا، کبھی لو جہاد کے نام پر ہراساں کیا جائے گا، کبھی ماب لنچنگ کرنے والے ظالموں کی پشت پناہی کرکے ان کو رہا کروا لیا جائے گا اور ورثاء کو پھنسا دیا جائے گا، کبھی بیوی بچوں کے سامنے چھت سے گرا کر مروا دیا جائے گا، اگر با اثر سیاسی شخصیت ہیں اور اقلیتوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے خلاف مقدمہ درج کرکے جیل کے حوالے کر دیا جائے گا، اگر آپ پولیس میں ہیں اور انصاف کی راہ پر چل رہے ہیں تو سبودھ کمار کی طرح بھیڑ اکٹھا کراکر مروا دیا جائے گا اور حکومت اعلان کر دے گی کہ سارے شرکاء قتل کو بری کر دیا جائے کیونکہ وہ ماب لنچنگ نہیں بلکہ ایک حادثہ تھا، کبھی مذہبی نامور شخصیات کو جھوٹے مقدمات لگا کر خاموشی سے گرفتار کروا دیا جائے گا، مطلب آپ کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ دو ہزار اٹھارہ میں تقریباً تراسی نوکرشاہوں نے ایک کھلا خط لکھ‌کر بلندشہر تشدد اور اتر پردیش میں بگڑتے لاء اینڈ آرڈر کو لےکر وزیراعلیٰ سے استعفیٰ دینے کی مانگ کی تھی جس میں یہ بھی لکھا تھا نوکرشاہوں نے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست اتر پردیش میں اقتدار کے بنیادی صولوں، آئینی پالیسی اور سماجی سلوک ختم ہو چکے ہیں، ریاست کے وزیراعلیٰ ایک پجاری کی طرح شدت پسند اور اکثریتی سوچ کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

مفتی غلام رسول قاسمی.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر