حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی ہمارے عہد کی عظیم شخصیت

تصویر
حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی : ہمارے عہد کی عظیم شخصیت : از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری سابق استاذ دارالعلوم دیوبند : سفیرِ تصوف، تحریکِ ارشاد، الہامِ اصلاح، واعظِ روح، خطیبِ قلب، دوائے دل، بہارِ سلوک، انجمنِ تزکیہ، موسوعۂ معرفت، انقلابِ باطن، لسانِ صوفیا، قلمِ حقائق، کاشفِ اسرار، کاتبِ انوار، شارحِ دقائق، مفسرِ رموز، فاتحِ عقبات، دست گیر راہ، مشکِ عرفان، طلسمِ تقریر، سحرِ بیان، حضرت پیر فقیر ذوالفقار نقشبندی آج رحمہ اللہ ہو گئے۔ غالبا دو ہزار ایک کی بات ہے، راقم دارالافتا کا طالب علم تھا، ایک روز درس گاہ میں ایک کتاب نظر آئی، کتاب تو میں کیا ہی دیکھتا! مصنف کا نام مقناطیس بن گیا، پیشانی پر مرقوم "پیر فقیر" بالکل غیر روایتی معلوم ہوا تھا، فہرست نارمل جا رہی تھی؛ یہاں تک کہ ایک عنوان گلے پڑ گیا، اس کے الفاظ یہ تھے: "ہڑتال فقط جانچ پڑتال"، یہ سرخی بد نگاہوں کا سچا آئینہ تھی، میں اس کی ندرت کا شکار ہوا، پڑھنے گیا تو صاحبِ کتاب نے ایک نیا قاری دریافت کر لیا تھا، مجھے یہاں بلا کی ذہانت ملی، انھوں نے اصلاح کے ایک نکتے کو مزے دار، زندہ، ہم عصر اور تازہ ب...

اگر یہ شخص نہ بولے تو؟

اگر یہ شخص نہ بولے تو...؟
اگر یہ شخص نہ بولے تو...؟..تو شاہد مسلمان اپنی آواز کھودیں گے بلکہ اپنے ہونے کا احساس تک بھی کھودیں۔تعجب ہے جس وقت میں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کے تحفظات کے لیے بھی اسٹرائکس کی جاتی ہیں، پروگرامس کئے جاتے ہیں اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں، اسی وقت میں انسانوں کے تحفظ کے لیے کہیں کچھ نہیں، کوئی کوشش نہیں۔ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر مسلمان برادری کو لنچنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے، راہ چلتے اور سوتے جاگتے ، رات کے اندھیرے میں اور دن کے اجالے میں ان پر ایک خاص ذہنیت کا طبقہ حملہ آور ہے مگر کہیں سے بھی کسی قسم کے احتجاج کی کوئی آواز نہیں آرہی ہے۔ کئی معاملات میں عدالت از خود نوٹس لیتی ہے مگر لنچنگ کے معاملے میں عدالت بھی ایسا کوئی نوٹس لینا گوارہ نہیں کرتی۔
اتنا بڑا ملک ہے، یہاں ہزاروں طبقات ہیں، سینکڑوں مذاہب ہیں، لبرلز ہیں اور بہت سے شفاف ذہنیت کے لوگ ہیں، عدالت ہے، قانون ہے، پولیس ہے اور سیاسی لوگوں کا اپنا ایک دبدبہ اور رعب ہے، مگر سب کی زبانوں پر گویا تالے لگے ہوئے ہیں، کہیں سے کوئی آواز نہیں آتی۔ میڈیا گودی میں بیٹھی ہوئی ہے، اپوزیشن طاقتیں مصلحت کی چادر اوڑھے ہوئی ہیں اور خود مسلم کمیونٹی کے سیاسی قدر آور لوگ اپنی اپنی پارٹی کے مرکزی کرداروں کی خوشامد اور چاپلوسی میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔شاہنواز اور نقوی سے تو خیر کیا امید کی جاسکتی ہے، آزاد بھی تو قیدی ہیں اور خورشید بھی توشمع کشتہ ہیں۔ اور وہ جو کبھی ’مولوی ملائم‘ ہوا کرتے تھے یا کہے جاتے تھے، انہوں نے بھی سیاست کے دوسرے طریقے سیکھ لیے ہیں۔ اب بولے تو کون اور چیخے تو کیوں۔ایک مسلمان کا قتل ، کوئی ایسی واردات تو نہیں کہ اس پر بولا یا چیخا جائے۔؟
ایک اویسی ہے جو خاموش سمند ر میں پتھر پھینک رہا ہے ، یہ آواز ہمارے وجود کے گہرے خاموش سمندر میں لہریں پیدا کرتی ہے اور ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم ابھی زندہ ہیں.. اگر خدا نہ خواستہ یہ آواز بھی کبھی خاموش ہوجائے تو..؟
’اللہ بہت بڑا ہے‘.. وہ کسی اور کو یہ آواز دے دیگا۔
ابو فہد

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

مال اور عہدہ کی چاہت

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر