ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

کب کب جھوٹ بولنا جائز ہے


سوال : سنا ہے تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے؟ کیا یہ درست بات ہے ؟


جواب :حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین مواقع پر جھوٹ کی اجازت دیتے تھے، ایک اس صورت میں جب دو مسلمان کے درمیان مصالحت مقصود ہو، دوسرے جنگ میں تاکہ دشمن کو دھوکہ دیا جا سکے، تیسرے شوہر بیوی کو یا بیوی شوہر کو خوش کرنے کے لیے (۱۱)۔ حدیث کا مقصود تین ہی صورتوں کا حصر نہیں بلکہ بقولِ امام غزالی اصل اہمیت مقصودکی ہے، وہ مقاصد جو شریعت کی نگاہ میں مطلوب اور پسندیدہ ہیں، اگر سچ اور جھوٹ دونوں ذریعہ سے حاصل کئے جا سکتے ہوں، تو جھوٹبولنا حرام ہے اور اگر جھوٹ بول کر ہی وہ مقصد حاصل ہو سکتا ہو تو اگر وہ مقصد مباح کے درجہ کا ہو تو جھوٹ بولنا بھی مباح ہو گا اور واجب کے درجہ کا ہو تو جھوٹ بولنا بھی واجب۔

امام غزالی رحمہ اللہ نے میمون بن مہران سے خوب نقل کیا ہے کہ بعض دفعہ جھوٹ سچ سے بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی مسلمان کے قتل کے درپے ہو اور وہ چھپ جائے، آمادۂ قتل مجرم اس کیتلاش میں آئے تو اس موقعہ پر جھوٹ بول کر اس کی جان بچا لینا، سچ بول کر اس کی نشاندہی کرنے سے بہتر ہے (۲۲)۔ علامہ حصکفی نے اس سلسلہ میں ایک قائدہ بیان کیا ہے کہ اپنے حق کے تحفظ اور ظلم سے بچنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے (۳۳) ۔ علامہ شامی نے لکھاہے کہ سچ کے ذریعہ جو فساد ہوتا ہو وہ جھوٹ کے فساد سے بڑھ کر ہو تو جھوٹ جائز ہو گا ورنہ حرام (۴)۔
---------------------------------------------------------------------
(۱) تخریج احادیث احیاء العلوم للعراقی ۳/۱۳۷۔
(۲) احیاء العلوم ۳/۱۳۷۔
(۳) در مختار علیٰ ہامش الرد ۵/۲۷۴۔
(۴) رد المختار ۵/۲۷۴۔
 حلال وحرام ص ٤٧٥
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاب


واللہ تعالی اعلم بالصواب

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر