حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی ہمارے عہد کی عظیم شخصیت

تصویر
حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی : ہمارے عہد کی عظیم شخصیت : از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری سابق استاذ دارالعلوم دیوبند : سفیرِ تصوف، تحریکِ ارشاد، الہامِ اصلاح، واعظِ روح، خطیبِ قلب، دوائے دل، بہارِ سلوک، انجمنِ تزکیہ، موسوعۂ معرفت، انقلابِ باطن، لسانِ صوفیا، قلمِ حقائق، کاشفِ اسرار، کاتبِ انوار، شارحِ دقائق، مفسرِ رموز، فاتحِ عقبات، دست گیر راہ، مشکِ عرفان، طلسمِ تقریر، سحرِ بیان، حضرت پیر فقیر ذوالفقار نقشبندی آج رحمہ اللہ ہو گئے۔ غالبا دو ہزار ایک کی بات ہے، راقم دارالافتا کا طالب علم تھا، ایک روز درس گاہ میں ایک کتاب نظر آئی، کتاب تو میں کیا ہی دیکھتا! مصنف کا نام مقناطیس بن گیا، پیشانی پر مرقوم "پیر فقیر" بالکل غیر روایتی معلوم ہوا تھا، فہرست نارمل جا رہی تھی؛ یہاں تک کہ ایک عنوان گلے پڑ گیا، اس کے الفاظ یہ تھے: "ہڑتال فقط جانچ پڑتال"، یہ سرخی بد نگاہوں کا سچا آئینہ تھی، میں اس کی ندرت کا شکار ہوا، پڑھنے گیا تو صاحبِ کتاب نے ایک نیا قاری دریافت کر لیا تھا، مجھے یہاں بلا کی ذہانت ملی، انھوں نے اصلاح کے ایک نکتے کو مزے دار، زندہ، ہم عصر اور تازہ ب...

ہوائی جہاز کے عملے بھی موجودہ حکومت سے پریشان ہیں

مفتی اشرف عباس
استاذ دارالعلوم دیوبند




گزشتہ کئی سالوں کی طرح میں آج بھی 4 مئی 2019 کی صبح کو بعض افریقی ممالک کے سفر کے لیے ممبئی ایئرپورٹ پہنچا تو ایمیگریشن آفیسر  میرے پاسپورٹ پر ایک دوست پڑوسی ملک کا ویزا دیکھ کر مجھے اندر افسر اعلیٰ کے پاس لے گیا،جس نے مجھ سے معمول کے چند سوالات کیے،جس کے جوابات دیئے گئے۔افسر اعلیٰ نے آخری سوال کیا کہ آپ ٹیچر ہیں تو آخر ان ملکوں میں جاتے کیوں ہیں؟ میری فلائٹ کا وقت قریب تھا اس لیے جلد اس سلسلے کو ختم کرنے  کی کوشش میں واضح لفظوں میں کہا کہ میں دارالعلوم دیوبند میں پڑھا تا ہوں،اور دنیا بھر کے لوگ جو دین اسلام اور اس کی تعلیمات امن و انصاف میں یقین رکھتے ہیں،وہ دارالعلوم دیوبند سے محبت کرتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کو اپنے پروگراموں میں مدعو کرتے ہیں۔جیسے ہی میں نے دارالعلوم کا نام لیا افسر اعلیٰ نے کہا اب ہمیں کچھ نہیں پوچھنا ہے۔لیکن میں نے زور سے دارالعلوم کا نام لیا تھا اس لیے دوسری میز پر اپنے کام میں مصروف ایک اور افسر نے وہیں سے کہا: آپ دارالعلوم دیوبند میں پڑھا تے ہیں ذرا ہمیں بھی گیان دیجیے۔ میں نے سوچا شاید وہ اسلام کے متعلق کچھ سوالات کرے گا،لیکن دونوں  نے خالص سیاسی سوالات شروع کر دیئے۔اس دوران پہلا افسر مجھے لے کر دوسرے کی میز کے پاس آگیا اور مزید دوچار ملازمین نے گھیر لیا۔پہلے افسر نے معذرت خواہی کے ساتھ پہلا سوال یہ کیا کہ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں یہ انہونی کیسے ہوئی کہ آپ کے دیوبند سے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، بی جے پی کنڈیڈٹ نکل گیا؟میں نے پہلے تو یہ صاف کیا کہ دیوبند اسمبلی حلقے میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں ہے،اوربتایا کہ اس کی اصل وجہ سیکولر ووٹوں کا انتشار ہے،اور اس کو اعدادوشمار کی روشنی میں واضح کیا۔اگلا سوال یہ تھا کہ اس الیکشن میں مغربی یوپی کا کیا حال ہے؟بتایاگیا کہ اتحاد کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔پھر وہ خاص سہارنپور،عمران مسعود،حاجی اور بھاجپا امیدوار کے سلسلے میں دریافت کرنے لگے ۔ان کا آخری سوال تھا کہ آپ کے اعتبار سے کس کی سرکار بننے جارہی ہے؟ میں نے مقام کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے دونوں میں سے کسی کی حکومت کو خارج از امکان نہیں قرار دیا۔جس پر وہ کہنے لگے: کانگریس کی ہی سرکار بنے گی۔اور مایاوتی بھی کانگریس کو ہی سپورٹ کریں گی۔  مودی سرکار کو تو کسی حال میں نہیں آنا چاہیے،روزگارختم ہے،جیٹ ایئر ویز کو تباہ کردیا۔ملازمین کے پیٹ پر لات ماردی۔اوربھی خامیاں شمار کراتے رہے۔میں نے کہا ان سب کے باوجود اس سرکار کے خلاف جو آکروش اور ناراضگی ہونی چاہیے وہ نظر نہیں آرہی ہے۔اس پر وہ کہنے لگے: میڈیا سے متاثر مت ہوئیے۔اندر ہی اندر مودی کے خلاف زبردست لہر ہے۔میں نے عرض کیا:اس کو باہر لائیے۔ہم مسلمان اکیلے یہاں کی ڈیموکریسی اور سیکولر ازم کو نہیں بچاسکتے ہیں۔گفتگو کو وہ حضرات طول دینا چاہتے تھے،لیکن بورڈنگ کا ٹائم قریب الختم تھا،اس لیے ان حضرات کو دیوبند کی دعوت دی اور شکریہ اداکرتے ہوئے میں نے جہاز کی راہ لی،اس خوش گوار احساس کے ساتھ کہ اس دفتر میں آج سے پہلے کسی نہ کسی سخت مزاج اور تند خو افسر سے ہی واسطہ پڑتا تھا،لیکن آج تو بفضلہ تعالیٰ معاملہ اس کے برعکس رہا۔غالبا مودی سرکار کی مسلسل عوام مخالف پالیسیوں نے انصاف پسندوں کے ضمیر کو جگادیا ہے،اور استحصال کے شکار لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے۔۔          اور اس وقت جب کہ میرا جہاز محض اللہ رب العزت کی تسخیر سے اڑتیس ہزار فٹ کی بلندی پر محو پرواز ہے،میں اسی قادر مطلق کی بارگاہ میں سربسجود ہوں اور یہ دعا اور تمنا کررہاہوں کہ آئندہ اٹھائیس مئی کو جب میں دوبارہ اپنے پیارے وطن کی سرزمین پر قدم رکھوں گا تو اس سے پہلے ہی موجودہ حکومت کے خاتمے کا اعلان ہو چکا ہوگا۔اور ملک کو نسبتاً انصاف پرور،ترقی پسند اور اقلیت دوست سرکار مل چکی ہوگی۔ولیس ذلک علی اللہ بعزیز۔
مفتی اشرف عباس صاحب
استاذ دارالعلوم دیوبند

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

مال اور عہدہ کی چاہت

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر