ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

انکار تراویح پر غامدی اور غیر مقلدین کو مدلل جواب

📗 جاوید احمد غامدی کے انکار تراویح کا ایک مدلل اور جامع تجزیہ نیز غیر مقلدین کی خود فریبی 

✏ فضیل احمد ناصری 


ماہِ رمضان میں سرکش شیاطین اگرچہ قید کردیے جاتے ہیں، مگر چھوٹے شیاطین کی آزادی سلب نہیں کی جاتی ، جس کا نتیجہ یہ کہ بہت سے مسلمان اس عظیم مہینے میں بھی تراویح جیسی عبادت سے لذت آشنا نہیں رہتے -یہ چھوٹے شیاطین عام باطل طاقتوں کی شکل میں بھی ہیں , غیرمقلدین اور غامدی کی صورت میں بھی- اور سب مل کر دین و شریعت سے ناواقف مسلمانوں کا ایمان کمزور کرنے میں لگے ہیں، اللہ حفاظت فرماے-آئیے! اب اصل موضوع پر گفتگو ہوجاے-

نماز تراویح کے سلسلے میں امت میں تین طرح کے گروہ پاے جاتے ہیں:

1 ........شیعہ .2....غیرمقلدین .....3......اہل سنت والجماعت

⚫ شیعہ کے نزدیک تراویح کا کوئی وجود نہیں- ان کے خیال میں نماز تراویح ایک من گھڑت نماز ہے- پاکستانی نرمل بابا (جاوید احمد غامدی) کا نظریہ بھی اس باب میں شیعہ کی ہم نوائی میں ہے -

⚫ غیرمقلدین لفظ تراویح کے تو قائل ہیں لیکن ان کے نزدیک تراویح کی رکعتیں آٹھ ہی ہیں، نہ کہ بیس- (سچ کہیے تو غیرمقلدین بھی تراویح کے قائل نہیں- عوام کے رد عمل سے بچنے کے لیے انہوں نے تراویح پڑھنے کا دعوی کیا ہے: جیسا کہ آئندہ سطور میں بیان کروں گا)

⚫ اہل سنت والجماعت کا دعوی بجا طور پر یہ ہے کہ تراویح کی نماز باقاعدہ ثابت ہے اور اس کی بیس ہی رکعتیں ہیں، نہ کم، نہ زیادہ-

اب میں ہر ایک نظریہ کی دلیل اور اس پر تبصرہ پیش کر رہا ہوں

🎯 غامدی نظریہ اور اس کی دلیل

ابھی حال ہی میں روزنامہ قدرت ( پاکستان) میں تراویح سے متعلق ایک خبر غامدی کی طرف منسوب ہو کر شائع ہوئی ہے ، جس کے مطابق" نماز تراویح سرے سے کوئی نماز ہے ہی نہیں- ہمارے دین میں دن بھر میں ہم پر اللہ کی طرف سے 5نمازیں فرض کی گئی ہیں ۔ یہ نمازیں ہر مسلمان پر فرض ہیں- اس نے اتنی عبادت کرنی ہے- خدا کے حضور میں حاضر ہونا ہے -عام مسلمانوں پر 5نمازیں اور رسول اللہ علیہ وسلم پر6نمازیں فرض کی گئی تھیں۔ اس کو قرآن میں سورۂ بنی اسرائیل میں بھی بیان کیا ہے کہ ’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کو ایک چھٹی نماز تہجد کا اہتمام بھی کرنا ہے اور یہ آپ کیلئے ایک زائد نمازہے‘‘۔اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اہتمام کےساتھ باقی 5نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد کی نماز بھی پڑھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے شوق میں مسلمانوں نے بھی تہجد کی نماز پڑھنا شروع کر دی۔ اس کا ذکر بھی قرآن میں سورۂ مزمل میں موجود ہے ’’صحابہ میں سے بھی کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھنے لگے‘‘۔ عام مسلمانوں کے لئے تہجد کی نماز نفل نماز ہے، جسے کوئی بھی پڑھ سکتا ہے، تاہم یہ نماز رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی۔ پھر رمضان کے ماہ میں لوگوں کی خواہش ہوتی کہ خصوصی طور پر رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھیں ۔ تاہم بعض لوگ جو محنت مزدوری کرتے تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ کیا اللہ ہمیں اتنی رعایت دے سکتا ہے کہ ہم تہجد کی نماز عشاء کے ساتھ پڑھ لیں؟ تو اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پڑھ سکتے ہو۔ تو ہم روزانہ عشاء کی نماز کے ساتھ وتر پڑھتے ہیں، یہ دراصل تہجد کی نماز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز عشاء کے ساتھ ان لوگوں کو پڑھنے کی اجازت دی جو صبح جلد نہیں اٹھ سکتے تھے- یہ نماز دراصل رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی، جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم3،5،7،9اور 11رکعتوں کی صورت میں پڑھتے تھے۔

مندرجہ بالا اقتباس میں غامدی نے کچھ باتیں صحیح کی ہیں اور باقی ہوائی فائرنگ ہے مثلا پانچ نمازوں کے بعد چھٹی نماز بصورت تہجد آپ پر فرض کی گئی حالانکہ ایسا ہے نہیں-بلکہ واقعہ یہ ہے کہ پنج وقتہ نمازوں سے قبل نبی علیہ السلام اور مسلمانوں پر نماز تہجد فرض تھی -جب پنج وقت نمازیں فرض ہوئیں تو امت سے تہجد کی فرضیت اٹھالی گئی، البتہ حضورعلیہ السلام سے اس کی فرضیت منسوخ ہوئی یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں علماےاسلام میں دو نظریات پاے جاتے ہیں اور راجح یہ ہے کہ آپ سے بھی اس کی فرضیت اٹھالی گئی تاہم آپ حسب معمول اس کی مواظبت سفر وحضر میں فرماتے رہے(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد سوم /ص/70 )غامدی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے صحابہ کی درخواست پر پیغمبر علیہ السلام نے تہجد کی نماز عشا کے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی اور وہ باجماعت - موصوف نے اولاً اپنے دعوے پر دلیل نہیں دی، اگر اسے دلیلوں پر مشتمل دعاوی فرض کیے جائیں تو بھی ایک مطالبہ رہ جاتا ہے یعنی اس نے حوالہ نہیں دیا- اور میں پورے وثوق و اذعان کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ صبح قیامت تک وہ حوالہ پیش نہیں کر سکتا، اس کی باتیں بالکل فرضی اور من گھڑت ہیں، اس سلسلے میں اس کے پاس موضوع حدیث بھی نہیں- جب کہ ہم اہل سنت و الجماعت کا دعوی ہے کہ تروایح ایک مستقل نماز ہے اور تہجد ایک مستقل نماز......اس دعوے پر متعدد دلیلیں آئندہ سطروں میں بیان کروں گا- پہلے غامدی نظریے پربحث ہو جائے

غامدی آگے کہتا ہے:

اسی حوالے سے ایک مرتبہ لوگوں کی جانب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ کو تو مکمل قرآن یاد ہے، لیکن ہمیں مکمل یاد نہیں، لہٰذا کیا ہم رکعتیں بڑھا سکتے ہیں؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی اجازت دے دی۔ چنانچہ تہجد کی نماز امام مالک کے زمانے تک 3/رکعتوں سے لے کر49/رکعتوں تک پڑھی جاتی تھی۔ اس لئے تہجد نماز ہمیشہ تاک(طاق) یعنی3،5،7اس ترتیب سے پڑھی جائے گی۔ تہجد کی نماز کبھی بھی 2،4یا6رکعتوں کی صورت میں نہیں پڑھی جائے گی۔ عام دنوں میں اس نماز کو وتر کی صورت میں پڑھا جاتا ہے۔ عربی میں وتر کہتے ہیں تاک(طاق) کرنے کو ۔ اس نماز کا نام تراویح تب پڑا جب لوگ تہجد نماز کی زیادہ رکعتیں پڑھنے لگے اور آرام کے غرض سے 4/ رکعتوں کے بعد بیٹھ جاتے تھے۔ عربی میں اس بیٹھنے کو "ترویحہ" کہتے ہیں اور اس کی جمع ہے تراویح۔ اسی لئے اس نماز کا نام تراویح بھی ایسے ہی پڑا ۔

اس اقتباس میں کئی دعوے کیے گئے ہیں:

1......تہجد کی نماز میں کم از کم تین رکعات ہیں

2.......تہجد کی نماز طاق ہوتی ہے نہ کہ جفت

3......امام مالک کے زمانے تک تین رکعات سے لے کر انچاس رکعات تک امت میں نماز تہجد کا معمول رہا، یعنی نماز تہجد کوئی تین رکعتیں پڑھتا، کوئی پانچ، کوئی سات، کوئی نو، علی ھذا القیاس کوئی سینتالیس اور کوئی انچاس -

لیکن ان دعاوی کی بھی کوئی دلیل اس" مفکر" اور "اسلامی اسکالر " نے نہیں دی اور یہاں بھی میرا دعوی ہے کہ غامدی زہر کا پیالہ تو پی لے گا، مگر دلیل اور حوالے روز حشر تک پیش نہ کر سکے گا-

جہاں تک پہلے دو دعووں کا تعلق ہے تو ان کا جواب یہ ہے کہ نماز تہجد کم از کم دو رکعتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ-

دورکعتوں کی دلیل:

بخاری شریف میں ابن عباس کی ایک طویل روایت ہے جس میں"ثم صلی رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم اوتر "جیسے کلمات ہیں-(بخاری شریف، جلد ۱/ص۳۰) -......... فقیہ النفس علامہ شامی فرماتے ہیں: اقول: فینبغی القول بان اقل التہجد رکعتان واسطہ اربع....... یعنی نماز تہجد کم ازکم دو رکعتیں ہیں (شامی، جلد 2/ص468)

بارہ رکعات کی دلیل غیر مقلدین کے دلائل کے ذیل میں نیچے آ رہی ہے -

ان احادیث سے غامدی کا یہ دعوی بھی رد ہوگیا کہ تہجد کی رکعات طاق ہیں، نہ کہ جفت- کیونکہ نماز تہجد کم از کم دو رکعات ہیں اور بیش از بیش بارہ - البتہ آپ کی عادت مبارکہ تہجد کے بعد وتر ادا کرنے کی تھی، اس لیے کل ملا کر ساری رکعتیں طاق بن جاتی تھیں، مگر یہ دعوی کہ تہجد کی رکعات ہی طاق ہوتی ہیں، ہٹ دھرمی جہالت اور عناد ہے: جیساکہ آئندہ معلوم ہوگا -

رہا تیسرا دعوی تو اس کا رد بھی آگے آ رہا ہے-

جاوید غامدی مزید کہتا ہے کہ یہ نماز دراصل تہجد کی نفل
نماز ہے جسے پڑھنے سے اللہ آپ کو بے حد ثواب دے گا، لیکن اگر آپ اسے نہیں پڑھتے تو اس سے آپ کے روزے پر اثر نہیں پڑے گا۔

غامدی کے بقول تراویح کی نماز کوئی نہ پڑھے، تو بھی حرج کی بات نہیں.............. لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک اس نماز کی اہمیت اس درجہ ہے کہ بقول شیخ الحدیث حضرت زکریا" شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ماثبت بالسنہ میں بعض کتب فقہ سے نقل کیا ہے کہ کسی شہر کے لوگ اگر تراویح چھوڑدیں تو اس کے چھوڑنے پر امام ان سے مقاتلہ کرے "(فضائل اعمال /ص568)

جہاں تک غیرمقلدین کا معاملہ ہے، تو وہ آٹھ رکعات تراویح کے ثبوت میں تہجد کی احادیث لاتے ہیں اور رمضان میں عشاء کے بعد تراویح کے نام پر تہجد کی آٹھ رکعتیں پڑھتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ سال کے گیارہ مہینوں میں جو نماز "تہجد "کہلاتی ہے،وہی رمضان میں تراویح بن جاتی ہے-گویا نماز نہ ہوئی، کمپیوٹر ہوگیا، کیبل لگادو تو ٹیلی ویژن اور ہٹادو تو کمپیوٹر..........

ذرا ان کی دلیلیں ملاحظہ فرمائیے:

1......... بخاری شریف میں ہے: عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن انہ اخبرہ انہ سال عائشۃ رضی اللہ عنہا کیف کانت صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان فقالت ما کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولافی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ یصلی اربعاً فلاتسال عن حسنہن و طولہن ثم یصلی اربعا فلا تسال عن حسنہن و طولہن ثم یصلی ثلاثا قالت یارسول اللہ اتنام قبل ان توتر؟ فقال یا عائشۃ ان عینی تنامان ولاینام قلبی (کتاب التہجد)

اس حدیث میں آٹھ رکعت نماز کا ذکر ہے، یعنی حضور علیہ السلام رمضان ہو یا غیر رمضان، گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے، جن میں سے آٹھ رکعتیں تہجد کی ہوتیں اور تین رکعتیں وتر کی-...پھر تہجد کی یہ نمازیں چار چار رکعتوں پر مشتمل ہوتیں-
امام بخاری نے یہ حدیث "اثبات تہجد "کے لیے نقل کی ہے، مگر غیرمقلدین اسے تراویح کی دلیل مانتے ہیں-کمال یہ ہے کہ وہ اسے اپنا مستدل بھی مانتے ہیں، لیکن عمل بھی اس کے خلاف ہے، کیوں کہ اس میں چار چار رکعتیں پڑھنے کا ذکر ہے اور غیر مقلدین دو دو رکعتیں پڑھتے ہیں-

ذرا دوسری دلیل پر بھی نظر ڈال لیں، یہ حدیث بھی بخاری میں ہے اور "اثباتِ وتر "کےلیے لائی گئی ہے، ابن عباس اس کے راوی ہیں، اس میں آپ علیہ السلام کا طریقۂ تہجد بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں:

ثم صلی رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم اوتر

اس حدیث میں اگرچہ دو دو رکعت پڑھنے کا تذکرہ ہے، مگر رکعات آٹھ نہیں، بلکہ بارہ ہیں-غیرمقلدین نے دو دو رکعت پڑھنےکے لیے اس حدیث کو دلیل بنایا اور آٹھ رکعت پڑھنے کےلیے پہلی حدیث کو.....نہ اس حدیث پر پورا عمل ہے، نہ اس حدیث پر، مگرہیں اہلِ حدیث......کسی بھی حدیث سے تراویح بہرحال ثابت نہ ہوئی-

یہاں میں یہ بھی عرض کردوں کہ امام بخاری خود تراویح کی نماز باجماعت پڑھا کرتے اور تہجد کی نماز تنِ تنہا، گویا امام بخاری کے نزدیک بھی تراویح اور تہجد دو الگ الگ نمازیں تھیں، نہ کہ ایک- امام بخاری کا یہ طرزِعمل مقدمہ فتح الباری میں موجود ہے-

غیرمقلدین کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں آٹھ رکعتیں عشا کے ساتھ پڑھی ہیں، اس کا بھی کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں کہ پیغمبر علیہ السلام نے عشا کے بعد متصلاً آٹھ رکعتیں تراویح کی اور تین رکعتیں وتر کی پڑھی ہیں - غیرمقلدین سے بجا طور پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب پیغمبر علیہ السلام نے آٹھ رکعتیں عشا سے ملا کر نہیں پڑھیں تو تم کس دلیل سے پڑھتے ہو؟ ان سے یہ بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ تراویح کی اصطلاح تم نے کہاں سے لی؟ تمہارے نزدیک جب اصول شرع فقط قرآن اور حدیث ہیں تو تراویح کی اصطلاح کس اصل سے ثابت مانتے ہو؟ یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ تمہارے بقول جو نماز غیررمضان میں تہجد کہلاتی ہے وہی رمضان میں تراویح کہلاتی ہے تو پھر تراویح کی نماز تہجد کے وقت میں کیوں نہیں پڑھتے؟

لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جس طرح غامدی اپنے دعاوی پر دلیلیں باحوالہ پیش نہیں کر سکتا، یہ غیرمقلدین بھی خود کشی تو کر سکتے ہیں مگر معقول دلیلیں اور حوالے ہرگز پیش نہیں کر سکتے -......کئی غیرمقلدین سے میں نے مناظرے میں کہہ دیا کہ جناب عوام سے آپ ہرگز یہ مت کہیے کہ ہم نے تراوح پڑھ لی، بلکہ کہیے کہ صلوہ اللیل ادا کر لیا اور اس کے ساتھ دوسرے اعتراضات کے جوابات بھی اپنی زنبیل میں رکھیے!

سچ کہیے تو غیرمقلدین بھی تراویح کے منکر ہیں اور وہ تراویح کے نام پر تہجد پڑھتے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی نماز نہ تراویح ہی رہ پاتی ہے اور نہ تہجد، کیوں کہ آٹھ رکعات وقت سے پہلے پڑھی گئیں، اس لیے وہ تہجد نہ رہیں اور انہوں نے نماز تہجد ہی کو عشا کی طرف کھینچا ہے، اس لیے وہ تراویح بھی نہ رہیں-ہاں آٹھ رکعتیں نفل ضرور ہوگئیں، لیکن وہ بھی بدعت -جس کا ثبوت نہ رسول سے ہے اور نہ صحابہ سے-

یہ بھی ذہن میں رہے کہ غیرمقلدین اپنے موقف کی دلیل میں کچھ ایسی حدیثیں بھی لاے ہیں، جن میں آٹھ رکعت تراویح کا ذکر ہے، مگر وہ حدیثیں اس درجہ گھٹیا اور زٹیل ہیں کہ اگر دوسرے موضوع پر ایسی ہی حدیثیں نقل کی جائیں جو ان کے موقف کے خلاف ہوں تو وہ فوراً مسترد کردیں گے-

اہل سنت و الجماعت کے نزدیک نماز تراویح تہجد کے علاوہ ایک مستقل نماز ہے، اس سلسلے میں ان کے پاس کافی وافی دلیلیں ہیں- تفصیل کے لیے مناظراسلام مولانا سید طاھرحسین گیاوی مدظلہ کی کتاب" احسن التنقیح فی رکعات التراویح "کا مطالعہ فرمائیں - یہ کتاب اردو میں ہے اور اس میں موضوع کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے- مبحث کے مالہ و ما علیہ پر محدثانہ اور بصیرت افروز کلام کیا گیا ہے - یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ نماز تراویح حضور علیہ السلام سے لے کر آج تک بیس رکعتیں ہی پڑھی گئی ہیں، ان سے کم نہیں-اس سلسلے میں ایک اہم کتاب "التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبوی "سعودی عرب کے نامور عال دین، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے قاضی "الشیخ عطیہ محمد سالم "نے بزبان عربی لکھی ہے-اس کا مطالعہ اہل ذوق کو ضرور کرنا چاہیے-

اب چند دلائل ملاحظہ فرمائیں

1..........عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃً والوتر (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲/ص 294، ط ادارۃ القرآن)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے-

2........ عن جابر بن عبداللہ قال خرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات لیلۃ فی رمضان فصلی الناس اربعۃ و عشرین رکعۃ واوتر بثلٰثۃ (تاریخ جرجان لابی قاسم عزہ بن یوسف السہمی /ص۲۷۵)
آپ علیہ السلام نے صحابۂ کرام کو چوبیس رکعتیں پڑھائیں اور تین رکعات وتر بھی-...... چوبیس میں چار رکعتیں عشا کی ہیں اور بقیہ تراویح کی-اس واقعے کا تعلق بھی رمضان سے ہے-

3.......حضرت عمر کے دور خلافت میں بھی بیس رکعات پڑھی جاتی تھیں، بخاری شریف میں ہے:
عن عبدالرحمن بن عبدالقاری انہ قال خرجت مع عمر بن الخطاب لیلۃ فی رمضان الی المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون یصلی الرجل لنفسہ ویصلی الرجل فیصلی بصلوتہ الرھط فقال عمر انی اری لوجمعت ھٰؤلاء علی قارئ واحدٍ لکان امثل ثم عزم فجمعہم علی ابی بن کعب ثم خرجت معہ لیلۃ اخری والناس یصلون بصلوۃ قارئہم قال عمر نعم البدعۃ ھذہ والتی تنامون عنہا افضل من التی تقومون یرید آخراللیل وکان الناس یقومون اولہ-

مشہور محدث حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں: روی الحارث بن عبدالرحمن بن ابی ذباب عن السائب بن یزید قال کان القیام علی عھد عمر بثلاث و عشرین رکعۃ قال ابن عبدالبر ھذا محمول علی ان الثلاث للوتر...........(عمدۃ القاری جلد ۱۱ص۱۲۷)
بن عبدالبر کے بیان کے مطابق حضرت عمر کے دور میں تئیس رکعات پڑھی جاتی تھیں، جن میں سے تین رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں -

4........السنن الکبریٰ (جلد۲ص496) میں ہے کہ: ابن ابی ذئب یزید ابن خصیفہ سے اور وہ حضرت سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے دور میں رمضان میں لوگ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور حضرت عثمان کے دور میں شدت قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے-

5........ حضرت علی کے دور خلافت میں بھی تراویح کی بیس رکعات ہی پڑھی جاتی تھیں
السنن الکبریٰ (جلد ۲ص496)میں ہے عن ابی عبدالرحمن السلمی عن علی قال دعا القراء فی رمضان فامر منہم رجلاً یصلی بالناس عشرین رکعۃ قال وکان علی رضی اللہ عنہ یوتر بہ
.مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: عن ابی الحسناء ان علیاً امر رجلاً ان یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعۃ (جلد ۲ص۳۹۳) حضرت ابو الحسناء سے مروی ہے کہ حضرت علی نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحات (بیس رکعات) پڑھایا کرے-

🌍 بیس رکعات پر صحابہ کا اجماع ہے-

ملاعلی قاری الحنفی مشکوۃ کی شرح مرقاه المفاتیح میں لکھتے ہیں "اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃ (جلد ۳ص94)

شرح النقایہ میں ہے "فصار اجماعاً لماروی البیہقی باسناد صحیح انہم کانوا یقیمون علی عہد عمر عشرین رکعۃ وعلی عہد عثمان وعلیٍ ( جلد ۲ص241) تراویح کے بیس رکعات ہونے پر اجماع ہو گیا، کیوں کہ امام بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ صحابۂ کرام حضرت عمر کے دور خلافت میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے-حضرت عثمان و علی کے دور خلافت میں بھی یہی معمول تھا-

علامہ سید محمد مرتضی الزبیدی کہتے ہیں: وبالاجماع الذی وقع فی زمن عمر اخذ ابو حنیفۃ والنووی والشافعی واحمد والجمہور واختارہ ابن عبدالبر( جلد ۳ص۷۰۰) حضرت عمر کے دور میں انعقاد پذیر اجماع کی بناپر امام ابو حنیفہ، امام نووی، امام شافعی، امام احمد اور جمہورعلما نے بیس رکعات تراویح کا مسلک اپنا یا ہے-ابن عبدالبر مالکی بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں-

🌍 تراویح کا انکار دین کا انکار ہے اور بیس رکعات کا انکار بغض صحابہ

خلاصۂ کلام یہ کہ تراویح ثابت شدہ نماز ہے اور اس کی رکعتیں بیس ہیں، اس موقف پر صحابۂ کرام کا اجماع بھی ہوچکا-گویا بیس رکعت تراویح سنت رسول سے بھی ثابت ہے، سنتِ خلفاءراشدین سے بھی اور اجماعِ صحابہ سے بھی-لہذا جو شخص تراویح کا انکار کرتا ہے، وہ حدیث رسول کا بھی منکر ہے اور سنت صحابہ کا اور ان کے اجماع کا بھی-ایسا شخص جاہلِ مطلق ہی نہیں، معاندِ رسول بھی ہے-اسی طرح جو لوگ بیس رکعات کے منکر ہیں وہ دشمنِ رسول، دشمنِ صحابہ اور دشمنِ اجماع ہیں-ان دونوں طرح کے لوگوں کا مسکن "پاگل خانہ "ہے، نہ کہ عقل مندوں کی دنیا-

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر