اشاعتیں

ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

قانون کی بالادستی میں ہی جمہوریت کی بقاء ہے:

تصویر
قانون کی بالادستی میں ہی جمہوریت کی بقاء ہے: مفتی غلام رسول قاسمی  ‏آج ہی کے دن چھبیس نومبر 1949 کو ہمارے ملک بھارت  کا آئین تیار کیا گیا تھا، مناسب ہوتا کہ آج قومی سطح پر محاسبہ کیا جاتا کہ ملک کا جو دستور بنا تھا اس پر حزب اقتدار اور اس سے جڑی عوام عمل کر رہی ہے یا نہیں؟ غور و خوض کیا جاتا کہ ملک کے آئین کی خلاف ورزی کہاں کہاں اور کن زاویوں سے ہو رہی ہے تاکہ آئے دن اس کی ہو رہی خلاف ورزیوں پر لگام لگایا جا سکے۔  ملک بھر میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو برابری کا حق مل رہا ہے کہ نہیں؟ کہیں کسی خاص طبقے کی جانب سے اقلیتوں کو تکلیف تو نہیں پہنچائی جا رہی ہے؟ ویسے تو ہندوستان کا دستور دنیا کے سارے ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ مفصل ہے لیکن دستور مکتوب ہے اور عمل نہیں کیا جا رہا ہے، قانون کی بالادستی کو لیکر اس لیے بھی فکر مند ہونا ضروری ہے کہ نفرت پرست لوگ اور گروہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے جذبات مجروح کر رہے ہیں، مسلمانوں سے ووٹ کا حق چھیننے کا مطالبہ کر رہے ہیں، مدارس دینیہ کو دہشت گردی کا اڈا کہتے تھکتے نہیں، مسلمانوں کو گالیوں کے ساتھ غدار اور گولی مارنے کے ...

مائی لارڈ! اور کتنے بے گناہوں کی زندگی سے کھلواڑ ہوگا.!

تصویر
غلام مصطفی عدیل قاسمی  یہ صلاح الدین ہیں آج سے چھبیس سال پہلے بے بنیاد الزام کے تحت گرفتار کیے گئے تھے، طویل عرصے بعد عدالت نے ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے بری کردیا۔! سوال یہ ہے کہ ان کے چھبیس سال کی قیمت کون ادا کرے؟ جن آفیسرز نے انہیں پھنسایا ان کی کب پکڑ ہوگی تاکہ کسی کی زندگی تباہ کرنے سے پہلے سو بار سوچیں؟ ہمارے قانونی اداروں کے پاس ایسا کون سا طریقہ سے جس سے تباہ شدہ زندگیوں کی بازآبادکاری ہو اور اجڑے گھروں میں خوشیاں عود کر آئے؟ جو لوگ قانون کی وردی پہن کر اپنے آپ کو قانون سے اوپر سمجھتے ہیں ان پر لگام کب اور کیسے کسا جائے؟ ان سینکڑوں لوگوں (طویل عرصہ بعد بھی جنکا ابھی تک فرد جرم داخل نہیں ہوا) کو کب رہا کیا جائے گا جو سالوں سے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں؟ امید کہ بے گناہوں کو انصاف دلانے اور ان کی زندگی بچانے کیلئے ہماری عدلیہ کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گی۔

مسلمانانِ ہند تنہا احتجاج کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کا نظریہ

تصویر
مفتی غلام رسول قاسمی  میرا ماننا یہ ہے کہ مٹھی بھر مسلمان احتجاج کرکے اگر ایک الگ ملک بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو پچیس کروڑ مسلمان اپنے بل بوتے پر احتجاج کرکے کامیابی حاصل کیوں نہیں کر سکتے؟ ضرور کر سکتے ہیں، لیکن جمعیۃ علماء ہند کے بینر تلے حیدرآباد میں دئے گئے مولانا ارشد مدنی صاحب کے پرانے بیان کو اس کا سیاق سباق تراش کر (جبکہ وہ ویڈیو انتیس منٹ چالیس سکنڈ پر مشتمل ہے) اب شئیر کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟  اب جب کہ مولانا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر منتخب ہوئے ہیں کہیں اس کی بھڑاس نکالنے کی کوشش تو نہیں ہے؟ یہ اچھی بات نہیں ہے، جمعیۃ کا اول یوم سے نظریہ ہندو مسلم اتحاد اور بلاتفریق مذہب و ملت خدمت کا جذبہ اور ہندوستان کی سالمیت و بقا سیکولرزم کی بنیاد پر رہا ہے، اس لیے ہر تحریک و احتجاج میں وہ مسلم کے ساتھ دیگر مذاہب کے افراد کو بھی شامل رکھتی ہے اس بنا پر مولانا نے جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے بات کہی تھی، خیر جمعیۃ کا اپنا نظریہ و دائرہ کار ہے، اور ہمارا اپنا لیکن پرانے بیان کو ڈھونڈ کر اچھالنا امت میں نفرت کی بیج بونے کے مترادف ہے۔ مفتی غلام رسول قاسمی  you c...

حضرت مولانا سید ارشد مدنی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر منتخب

تصویر
مولانا سید ارشد مدنی صاحب جہاں سینکڑوں مدارس و ادارے کے سرپرست ہیں وہیں آپ دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث اور صدر المدرسين کے عہدہ پر فائز ہونے کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند کے صدر ہیں اور امارت شرعیہ ہند (جمعیۃ علماء ہند) کے ارباب حل و عقد کی جانب سے آپ کو باوقار عہدہ "امیر الہند" بھی تفویض کیا گیا، مزید برآں آپ رابطہ عالم اسلامی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیس بھی ہیں، آج ایک اور عہدہ آپ کو سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ ہے نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا عہدہ، اللہ سبحانہ وتعالی آپ کی نیابت کو خیر کا باعث اور امت مسلمہ ہندیہ کے لیے فائدہ مند بنائے! مفتی غلام رسول قاسمی

مولانا محمد رابع حسنی ندوی دوبارہ صدر منتخب، مولانا محمود احمد خاں دریا بادی رکن تاسیسی منتخب

تصویر
مولانا رابع حسنی ندوی دوبارہ صدر اور مولانا محمود احمد خاں دریا بادی رکن تاسیسی منتخب:  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی دوسری نشست میں باتفاق رائے مولانا محمد رابع حسنی ندوی صدر منتخب ہوئے، نیز نئے رکن مولانا محمود احمد خاں دریا بادی (ممبئی) کو بطور رکن تاسیسی کے منتخب کرنے کے ساتھ چالیس دیگر افراد کو عاملہ میں شامل کیا ہے۔ انتخاب کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی و دوسرے ممبرانِ بورڈ نے مولانا محمود احمد خاں دریا بادی اور نئے ارکان عاملہ کو مبارک باد پیش کیا۔  مفتی غلام رسول قاسمی .

بزم شعور قسط ۲(احاطہ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ایام 72-1971ء)

تصویر
بزم شعور قسط ۲ (احاطہ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ایام 72-1971ء)  احمد سجاد قاسمی  شعور کے اداریے میں ہم لوگوں کے خیال میں کوئی خاص بات نہیں تھی ۔صرف اتنا لکھا گیا تھا کہ دارالعلوم ایک خالص علمی ادارہ ہے اس عالمی شہرت یافتہ ادارہ کا کسی خاص تنظیم یا جماعت اور جمعیت سے ہی کوئ رشتہ نہیں بلکہ اس کے ماننے والوں میں اور اسکے فضلاء میں مختلف تنظیموں اور جماعتوسے تعلق رکھنے والے افراد ہیں ۔کسی سیاسی یا نیم سیاسی جماعت کی ممبر سازی اندرون دارالعلوم بہت اچھا عمل نہیں ہے ۔علمی تعلیمی اور تربیتی چہل پہل ہی دارالعلوم کا طرہ امتیاز ہے ۔۔۔۔ہمارے تین اساتذہ کرام نے شعور سے منسلک افراد کے خلاف اپنے ہر درس سے پہلے ماحول بنانا شروع کر دیا ۔اور طلباء کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی کہ ابھی دارالعلوم میں کچھ طلباء مودودی ہیں ان سے دارالعلوم دیوبند کو پاک کرنا ہم سبھی کا فریضہ ہے ۔ہمارے ان اساتذہ کرام میں ایک حضرت مولانا وحید الزمان صاحب کیرانوی تھے جو ہم طلباء میں کافی مقبول بلکہ محبوب تھے ۔آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ طلباء انکی رفتار اور گفتار کی نقلیں اتارتے ت...

بات پرانی (اکابر دیوبند کے حالات) قسط ٠١

تصویر
سمپوزیم ..اسلام اور عصرحاضر ۔۔۱۳-اپریل ۱۹۷۷۔ مولانا احمد سجاد قاسمی  مجلس کا تیسرا فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کی نظم ترانہ دارالعلوم جوانکے مجموعہ کلام میں مقید ہے اسے ہم بحیثیت ترانہ دارالعلوم سمپوزیم میں اس طرح پیش کریں کہ دارالعلوم دیوبند کے ہر اجلاس میں طلبہ پڑھنے کے لیے مجبور ہو جائیں اور عملی طور پر پر وہ دارالعلوم کا ترانہ بن جاے ۔اب یہ بڑا مسئلہ بن گیا کہ اسے پیش کر نے کا کیا طریقہ ہو۔ہم میں کوئی نعت خواں یا صاحب ترنم تو تھا نہیں ۔پھر بھی یہ خیال تھا کہ نعت یا غزل کا ترنم ترانہ کو مجروح کر دیگا ۔اسی حیص بیص میں سب مبتلا تھے کہ اچانک سعید بھائی کی رگ حمیت پھڑکی انہوں نے پورے اعتماد سے کہا کون سا ایسا کام ہے جسے رفقاء ثقافت نہیں کر سکتے ہیں ۔ترانہ کیلئے میں اسلام بھائی اور سجاد کافی ہیں ۔طرز بنا لیں گے اور مشق کریں گے اور انشاءاللہ اچھے طریقے سے پیش کریں گے ماشااللہ سبھی صاحب ذوق ہیں ۔اگلے دن سے محنت شروع کردی گئی ۔الداعی کا دفتر جہاں ہم سبھوں کا جماوڑا ہوتا تھا اسلام بھائی جب تک الداعی کے کاموں میں مصروف ہوتے ہماری مشغولیات متنوع تھیں ۔شعر و شا...