روس اور یوکرین کے درمیان جنگ سے مسلم اور مسلم ممالک پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ 
ایسا لگتا ہے کہ بہت سے مسلمان روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو نظر انداز کر رہے ہیں، شاید مسلمانوں کو لگتا ہے کہ یوکرین ایک مسلم ملک نہیں ہے  اس لیے سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال سے مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔  جبکہ یہ حقیقت سے بعید ہے، اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو مسلمانوں کے متاثر ہونے کے بہت سے طریقے ہیں۔ آئیے ان میں سے کچھ چیزوں کو ہم مزید قریب سے دیکھتے ہیں۔
 1. یوکرین ایک غیر مسلم اکثریتی ریاست ہے لیکن وہاں بھی مسلمانوں کی   آبادی ہے۔  ایک اندازے کے مطابق یوکرین میں مسلمانوں کی آبادی 500000 سے ایک ملین کے لگ بھگ ہے۔  یہ یوکرین کی 44 ملین افراد کی آبادی کا صرف 1 فیصد سے کم ہوگا۔  یہ لوگ صرف شہری ہونے کی وجہ سے جنگ سے منفی طور پر متاثر ہوں گے۔  ایک مسلمان کی عزت اور خون مقدس ہے۔  اور ان ہزاروں مسلمانوں کے مصائب پر بحیثیت امت ہماری فکر ہونی چاہیے۔
 2. کریمیا یوکرین کا ایک جزیرہ نما حصہ ہے جسے روس نے 2014 میں یوکرین کی روس نواز حکومت کو کچھ ہفتوں کے مظاہرے کے ذریعے ختم کرنے کے بعد ضم کر لیا تھا۔  کریمیا میں مسلمانوں کی زیادہ آبادی ہے۔  یہاں تقریباً 12% آبادی مسلمانوں کی ہے، جن میں زیادہ تر تاتار ہیں۔  مسلم اقلیت پر منظم جبر کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔  بہت سے تاتاری مسلمان بھی کریمیا میں ظلم و ستم سے بچنے کے لیے یوکرین کی سرزمین میں آباد ہو چکے ہیں۔
3. کریمیا اور یوکرین میں بھی مسلمانوں کی تاریخ ہے۔  کریمیا 1313 سے 1779 تک مسلم حکمرانی کے تحت تھا  اس علاقے کو کیتھرین دی گریٹ نے سامراجی روس کے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔  اس طرح یہ سپین اور ہندوستان کی طرح مسلمان اور اسلام کی سابقہ سرزمین ہے۔  مسلمان تاتاریوں کو ہمیشہ روسی حکمرانی میں ستایا گیا اور 1944 میں سٹالن نے پوری آبادی کو ان کے وطن سے جلاوطن کر دیا۔  ظلم و جبر کے اس دلخراش واقعے میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔  انہیں برسوں بعد واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ یہ  ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے جسے امت کے بہت سے لوگ بھول چکے ہیں۔
 یوکرین میں اسلامی تاریخ کا ایک اور پہلو بھی ہے۔  عثمانی سلطان سلیم اول کی بیوی کریمیائی تاتاروں کی شہزادی تھی۔  مزید برآں حریم سلطان جسے روکسلانہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، عثمانی سلطان سلیمان دی میگنیفیسنٹ کی بیوی تھی۔  اس کا تعلق یوکرین کے شہر روتھینیا سے تھا جو ازوف کے سمندر کے پر واقع ہے۔  اس شہر میں ایک مسجد ہے جسے سلیمانی مسجد کے نام سے آج بھی جانا جاتا ہے، جو ان کی یاد میں بنائی گئی ہے۔
 4. یوکرین جغرافیائی طور پر ترکی کے قریب ہے اور یہ بااثر مسلم ملک میں سے ہے۔  ترکی یوکرین کی حمایت کرتا ہے اور یوکرین کو ڈرون ٹیکنالوجی فروخت کرتا رہا ہے۔  صدر اردگان نے موجودہ بحران کے پرامن خاتمے کے لیے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔
 ترکی کا روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات  ہیں پھر بھی تنازعہ کے بڑے امکانات باقی ہیں۔  ترکی اور روس لیبیا، شام اور آذربائیجان میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔  ترکی نیٹو کا بھی رکن  ہے۔  دوسری طرف ترکی  کریمیائی تاتاروں کی حالت زار پر آواز اٹھاتا آ رہاہے۔  ترک مشرق اور مغرب کے درمیان تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن جنگ کی صورت میں معاملات گرم ہوسکتے ہیں۔  مثال کے طور پر 2018 میں، آبنائے کرچ میں ایک مہلک جھڑپ کے بعد یوکرین نے ترکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ باسپورس سے روسی جہازوں کو روکے۔  جنگ یقینی طور پر بحیرہ اسود اور اسٹریٹجک آبی گزرگاہوں میں تناؤ کا باعث بنے گی۔
 5. شام ایک اور ہاٹ سپاٹ ہے۔  روس نے شام میں مداخلت کرکے اپنے ہی لوگوں کے خلاف اسد کی مدد کی ہے ۔  آج شام میں کثیر الجہتی جنگ لڑنے والی متعدد فوجیں شامل ہیں۔  روس ترکی پر دباؤ ڈالنے کے لیے شام کو گرم سکتا ہے تو  شام کو ٹھنڈا بھی کر سکتا ہے کیونکہ اس کی توجہ مغرب کی طرف ہوگی۔  امریکی فوجیوں و روسی فوجیوں کے درمیان بھی تناؤ بڑھ سکتا ہے جو شمالی شام کے افراتفری والے علاقے میں ایک دوسرے کے قریب ہیں جہاں دونوں آئی ایس آئی ایس کے خلاف کھڑے ہیں۔
 شام کی طرح لیبیا، آذربائیجان اور بلقان میں بھی ایسی ہی کشیدگی پھیل سکتی ہے، جہاں مغرب، ترکی اور روس کے جیو پولیٹیکل مفادات آپس میں ٹکراتے ہیں۔
 6. یوکرین گندم برآمد کرنے والا ملک ہے۔  شمالی افریقہ اپنی گندم کا ایک اہم حصہ یوکرین سے درآمد کرتا ہے، اور یہ انحصار بڑھے گا کیونکہ یہ خطہ خشک سالی والا ہے ۔  یوکرین میں جنگ ان درآمدات کو کم کر دے گی، خوراک کی قلت پیدا کرے گی اور قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔  اگر صورت حال کو مناسب طریقے سے سنبھالا نہیں گیا تو ان ممالک میں سماجی بے چینی پھیل سکتی ہے۔
 7. اور پھر بدترین صورتحال۔  چین اور دیگر ممالک بھی اس تنازعہ میں  شامل ہو سکتے ہیں، اور جنگ عالمی سطح پر ہو سکتی ہے۔  کیا ایسی عالمی جنگ ایٹمی ہو سکتی ہے؟  اگرچہ یہ امکان بعید ہے،لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔  ایسی صورت حال میں پوری دنیا تباہ کن طور پر متاثر ہوگی۔  شکر ہے کہ اس کے امکانات کم ہیں۔
 آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ یوکرین ایک مسلم ملک نہیں ہے، لیکن وہاں جنگ لاکھوں مسلمانوں کی زندگیوں پر بہت زیادہ اثر ڈالے گی۔
 اللہ سبحانہ وتعالی مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور کافروں کو اسلام کی حقانیت کی طرف رہنمائی عطا فرمائے! اسلام ہی نجات کا واحد راستہ ہے اور پوری انسانیت کے لیے رحمت ہے۔ 
 
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں