ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

١٠ مارچ یوم ولادت مولانا عبیداللہ سندھیؒ

10/مارچ، حضرت سندھی رح کا یوم ولادت۔
✒انس بجنوری 

      آج ایک عبقری متکلم،مشہور مجاہد آزادی،حضرت شیخ الہند کے معتمد خاص،فکر ولی اللہی کے سب سے بڑے ترجمان،جید عالم، باکمال مفسر،امام انقلاب حضرت مولانا عبیداللہ صاحب سندھی کا یوم ولادت ہے،عبید اللہ سندھی اسلامیان ہند کی گذشتہ تاریخ کا ایک بے باک اور نڈر رہنما ہے،جرآت و پامردی کا پیکر، عزیمت و استقلال کا پہاڑ،انقلابات و فن عروج و زوال کا امام اور فکر و نظر کی گہرائی کا عظیم باب ہے۔۔۔دارالعلوم دیوبند اپنی زریں تاریخ کے دوسرے عہد سے گذر رہا تھا کہ باب الاسلام سرزمین سندھ کے آغوش میں یہ نوجوان کلمہ پڑھ کر اسلام کا حلقہ بگوش ہوا،مبادیات سے واقف ہوکر دارالعلوم دیوبند پہونچا اور شیخ الہند کے آتشی نفس نے پہلے سے جمع شدہ خس و خاشاک میں آگ لگادی،اپنی غیر معمولی ذکاوت و ذہانت اور بے پناہ صلاحتیوں کی بنا پر اس درس گاہ کا ایک فاضل جلیل کہلایا، اس نوجوان کا دماغ بڑا اسکیم ساز اور انقلابی تھا،ریشمی رومال تحریک میں زیادہ تر عملی اقدامات آپ ہی کے رہین منت ہے۔۔۔۔تحریک ریشمی رومال کے علاوہ اور کئی تحریکات اسی مفکر کے گرد گھومتی ہے۔۔۔تحریک ریشمی رومال اگر کامیاب ہوتی تو اس کے تار سے غلبہء اسلام کا ایک دلکش نغمہ پھوٹتا جس کی مسحور کن صدائیں برصغیر میں سنائی دیتیں۔۔۔لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! 
اسی تحریکی شجر کی آبیاری کے لیے آپ نے افغانستان،روس حجاز اور جرمنی میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد ہندوستان کا رخ کیا اور یہ کہتے ہوئے ہندوستان کی طرف رخت سفر باندھا کہ:
"میرا یہ غیر متزلزل یقین اور عقیدہ ہے کہ اسلام کا مستقبل بڑا روشن اور شان دار ہے۔بے شک اسلام پوری قوت اور توانائی کے ساتھ ایک بار پھر ابھرے گا؛لیکن خارج میں اس کا ڈھانچہ وہ نہیں ہوگا، جو اس وقت ہے،مجھے جیسے اس بات پر  یقین ہے اسی طرح میرا یہ بھی ایمان ہے کہ ہمارا موجودہ ڈھانچہ اب چند دنوں کی چیز ہے۔ایک نیا ڈھانچہ بنانا ہوگا اور اسے مسلمان جس قدر جلد بنالیں بہتر ہوگا۔۔یہ دو عقیدے ہیں جو مجھے کشاں کشاں ہندوستان لے جارہے ہیں۔میں اب چراغ سحری ہوں،خدا معلوم زندگی کے کتنے اور ہوں،چاہتا ہوں مرنے سے پہلے اپنی قوم تک یہ حقیقت پہنچادیں!"
 آپ نے یہاں پہونچ کر فکر ولی کے احیاء کی بنا ڈالی اور ولی اللہی افکار کی اشاعت اپنے لیے خصوصی مشغلہ قرار دیا ؛مگر افسوس کہ ملک و ملت ان کے افکار کو قبول نہ کرسکی۔۔۔۔چنانچہ یہ سیماب وار زندگی سندھ کی ریگستانی فضاؤں میں ہمیشہ کے لیے تحلیل ہوگئی ۔۔۔لیکن آپ کا روشن کیا ہوا چراغ نظریات ابھی بھی ٹمٹما رہا ہے اور اپنے کسی جدید رہنما کو آواز دے رہا ہے۔۔!!

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر