حضرت اقدس مولانا حکیم اختر صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے شیخ کے شیخ حکیم الامت حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اور مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا گنگوہی کے پاس علم تو تھا مگر برکت اور آسمانی واردات سے ہم لوگ محروم تھے، صرف کتب بینی تھی، مگر جب حاجی صاحب کی زیارت سے قطب بینی کی اور ان کی محبت اور ان کی صحبت نصیب ہوئی تو آسمان سے علوم آنے لگے؎
میرے پینے کو دوستو سن لو
آسمانوں سے مے اُترتی ہے
اور پھر فرمایا کہ جب ہم عالم ہو کر مدرسوں سے نکلے تھے تو ہماری تقریریں ہوتی تھیں مگر ان میں اثر نہ تھا، دردِ دل نہ تھا، زبان میں وہ تاثیر نہ تھی، ہمیں کوئی پوچھتا بھی نہ تھا مگر حاجی صاحب سے تعلق کے بعد اﷲ نے اس قدر اثر ڈالا کہ حضرت حاجی صاحب کی برکت سے جہاں بھی تقریر ہوتی تھی تواتنے علوم وارد ہوتے تھے کہ بڑے بڑے وکیل اوربیرسٹر اور جج کہتے تھے کہ اس کو کس نے مولوی بنا دیا! یہ ایسے دلائل پیش کرتا ہے کہ اگر یہ جج یا بیرسٹر ہوتا تو عدالت کو ہلا کر رکھ دیتا۔ کانپور میں حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا وعظ سن کر ایک فارسی داں بڈھے بیرسٹر نے پوچھا؎
تو مجمل از جمال کیستی
تو مکمل از کمال کیستی
تجھ کو یہ جمالِ علم کہاں سے حاصل ہوا؟ تجھ کو یہ کمالِ علم کہاں سے حاصل ہوا کہ زبانی ایسے ایسے دلائل دیے؟ تو حکیم الامت نے جواب دیا؎
من مجمل از جمالِ حاجیم
من مکمل از کمالِ حاجیم
میں حاجی امداداﷲ کے جمال سے مجمل ہوا ہوں اور حاجی امداد اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ کے صدقے میں یہ کمال مجھ کوعطا ہوا ہے۔
میرے شیخ و مرشد مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا کانپور میں بیان ہو رہا تھا اور اس بیان میں، میں بحیثیت سامع کے موجود تھا۔ میری اس روایت میں جو آپ کی اس مسجد میں اختر پیش کر رہا ہے صرف شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲعلیہ راوی ہیں جن کو بارہ مرتبہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور جن کو حکیم الامت خط میں محبی و محبوبی شاہ عبدالغنی لکھتے تھے۔ حکیم الامت شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ کو لکھتے تھے کہ آپ حاملِ علومِ ولایت اور حاملِ علوم نبوت ہیں۔ انہوں نے یہ روایت مجھ سے کی کہ میں ا س مسجد میں سامع تھا، حکیم الامت کا بیان ہو رہا تھا، مضامین کے واردات عجیب و غریب تھے اتنے میں حضرت نے چیخ ماری حالاں کہ حکیم الامت غالب علی الاحوالِ تھے، ان میں مغلوبیت نہیں تھی مگر کبھی کبھی کاملین بھی مغلوب الحال ہوجاتے ہیں، تو حضرت نے چیخ ماری اورکہا: ہائے امداد اﷲ! اور یہ کہہ کر بیٹھ گئے اور رونے لگے۔آہ! میرے شیخ نے فرمایا کہ اس وقت سارا مجمع رو رہا تھا۔ بعد میں کسی نے پوچھا کہ حضرت! آج کیا بات ہو گئی تھی؟ آپ نے فرمایا کہ اتنے علوم وارد ہو رہے تھے کہ ہم سوچتے تھے کہ پہلے کیا بیان کریں اور بعد میں کیا بیان کریں؟ ترتیب میں ہمارے لیے مشکل پیدا ہو گئی تھی، علوم کی مسلسل بارش ہو رہی تھی حالاں کہ حاجی صاحب سے تعلق سے پہلے یہ بات نہیں تھی، جب حاجی صاحب سے بیعت ہوا اس کے بعد سے علوم کی بارش عطا ہوئی تو جس کا احسان ہے اس محسن کو کیوں نہ یاد کروں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں