ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

فسق یزید اہل سنت کا عقیدہ ہے؟

،
مرکز البحوث الإسلامية میں فسق یزید پہ جاری بحث کی تفصیلی روئیداد اور اس کا تجزیہ
"مرکز البحوث الإسلامية" 
میں فسق یزید پہ جاری بحث کی تفصیلی روئیداد اور اس کا تجزیہ 
-------------------------------
بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی
--------------------------------
ماہ محرم آتے ہی چند سالوں سے ہمارے واٹس ایپ حلقے "مرکزالبحوث" میں فسق یزید پہ خواہی نخواہی بحثوں کا طویل سلسلہ چل پڑتا ہے، کئی سال سے یہ معمول چلا آرہا ہے، لیکن بحث بغیر نتیجہ و فیصلہ ہی ختم ہوجاتی تھی، سال رواں بھی یہ بحث ایک فاضل رکن کی ایک مشترک تحریر کے باعث جلقے میں دبے پاؤں در آئی، پھر کیا تھا؟ فضلائے حلقہ کی طرف سے اس بابت علمی تحقیق، تعلیق، تبصرے وتجزیئے کی گہرافشانی شروع ہوگئی۔ 
ایک طرف فاضل نوجواں ابوحنظلہ مولانا عبدالاحد صاحب قاسمی زید مجدہ تھے جن کا موقف تھا کہ فسق یزید پہ علماء متقدمین ومتاخرین کا اجماع و اتفاق ہے، اس ذیل میں انہوں نے حضرت الاستاذ مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی مدظلہ العالی کی کتاب "محرم" کے جواب میں مولانا نسیم احمد صاحب غازی بجنوری رحمہ اللہ کی تالیف کردہ کتاب کے حوالے سے بعض اقتباسات پیش کئے تھے جس میں غازی صاحب نے حضرت الاستاذ کو اپنی کتاب کے بعض مندرجات کے باعث اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیا تھا، غازی صاحب کی کتاب چونکہ رد میں لکھی گئی ہے اس لئے اس کا لب ولہجہ اور اسلوب حد سے زیادہ ہی جارحانہ بلکہ بعض مواقع پہ تنقیص آمیز محسوس ہوتا ہے- 
دوسری طرف مولانا وڈاکٹر مفتی عبیداللہ صاحب قاسمی زید مجدہ اور مولانا اسجد صاحب قاسمی وغیرہم کا خیال تھا کہ فسق یزید مجمع علیہ نہیں ہے، اور تفسیق یزید کا معاملہ عقائد اہل سنت کے لوازمات وواجبات میں سے نہیں ہے۔ یعنی فسق یزید کی تردید کرنے والے حضرات بھی اہل سنت والجماعت کہلائیں گے۔ انہی دو بنیادی نکتوں پہ بات چلتی رہی۔
خلاف معمول اس مرتبہ یہ طے کیا گیا کہ بحث بے نتیجہ نہ چھوڑی جائے، طرفین سے اپنا اپنا مدعا مدلل و مبرہن پیش کرنے کی گزارش کی گئی۔ پھر تکمیل بحث کے بعد حکم دلائل وبرائین کی روشنی میں اپنا فیصلہ قلمبند کرکے حلقے میں مشترک کریں گے۔
مولانا عبدالاحد صاحب کا دعوی ہے کہ فسق یزید اہلسنت کا اجماعی و اتفاقی  عقیدہ ہے۔ جس پر انھوں نے اسی (80) سے متجاوز محدثین و مورخین کے اقوال یکے بعد دیگرے پیش کردیئے، جو فرداً فرداً فسق کے قائل ہیں، ان کی پیش کردہ بعض عبارات اس طرح کی بھی ہیں جن میں فسق یزید کو اتفاقی و اجماعی بھی کہا گیا ہے۔ وہیں اکابر دیوبند کے ان گنت اقوال بھی پیش کئے  ہیں جن میں یزید کو فاسق بلا ریب کی تصریح موجود ہے۔ یوں وہ فسق یزید کو  متقدمین ومتاخرین اور اپنے اکابر کے اقوال کی روشنی میں اتفاقی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی.
ان کا دعویٰ تھا کہ فسقِ یزید پر اہلسنت کا اتفاق ہے۔ 
نیز پوری جماعت میں کسی ایک آدھ کے اختلاف کرنے سے مسئلہ اختلافی نہیں بن جاتا ورنہ کوئی بھی مسئلہ اجماعی نہیں رہے گا۔
اجماع کے ثبوت کے دو طریقے ہیں:
پہلا یہ کہ علماء اہلسنت کا جم غفیر قرناً بعد قرنٍ کسی مسئلہ میں ایک ہی رائے کو مسلسل نقل کرتا رہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اہلسنت کے علماء محققین کی ایک جماعت کسی مسئلہ پر اجماع و اتفاق کا دعویٰ کرے۔
انہوں نے دونوں طریق سے فسقِ یزید پر اجماع و اتفاق ثابت کرنے کی سعی کی۔ 
پہلے انہوں نے اہلسنت کے 56 متقدمین و متاخرین محدثین کی فسقِ یزید پر صاف ستھری عبارات نقل کی۔ 
پھر ابن خلدون، ابن حجرمکی، محمد بن علی الصبان، شاہ ولی اللہ، علامہ انورشاہ کشمیری، علامہ یوسف بنوری، وغیرہ تقریباً 15 محققین علماء کی ایسی عبارات نقل کیں جن میں فسقِ یزید پر اہلسنت کے اتفاق، ایک آدھ میں اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ 
ان کا خیال ہے کہ کسی بھی مسئلے کو اجماعی و اتفاقی ثابت کرنے کے لئے اتنے حوالے کافی ہونے چاہئیں۔
صرف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت سے اس اجماع و اتفاق کو باطل نہیں کیا جاسکتا، آخر میں انہوں  نے خود ابن تیمیہ کے حوالے ”ومع هذا فيُقال: غاية يزيد وأمثاله من الملوك أن يكونوا فساقاً.“ سے یزید کی تفسیق ثابت کرنے کا دعوی فرمایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے برخلاف اہلسنت کا کوئی ایک بھی معتبر نام (ان کے علم کے مطابق) ایسا نہیں جس نے فسق یزید کا انکار کیا ہو۔
امام غزالی اور ابن صلاح کی بعض عبارات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ دونوں بزرگ فسق کے انکاری ہیں، انھی پیش کردہ عبارتوں سے ثابت کردیا کہ یہ دونوں بزرگ فسق کے نہیں؛ لعن کے انکاری ہیں اور لعن ہماری بحث سے خارج ہے، ہم خود لعنت کے انکاری ہیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ سے لیکر آخری زمانے تک کے پچاس سے زائد علماء دیوبند کے حوالے بھی محفوظ ہیں۔ نیز متقدمین و متاخرین علماء اہلسنت میں ابن عربی اور عبدالمغیث حربی کے علاوہ کسی کی بھی عبارت سے فسق کا انکار ثابت نہیں ہوتا۔
علماء دیوبند میں محدث اعظمی اور مفتی حبیب الرحمٰن صاحب خیرآبادی سے پہلے کسی نے بھی اس مسئلے میں اختلاف نہیں کیا اور محدث اعظمی کی رائے بھی لوگوں کو 2014 کے بعد معلوم ہوئی ورنہ اس سے پہلے یہ کتاب چھپی نہیں تھی اور پہلے محدث اعظمی خود فسق کے قائل تھے جیساکہ ان کے مقالات میں موجود ہے۔
دوسری جانب  مفتی وڈاکٹر عبیداللہ صاحب قاسمی اور مولانا عبدالعلیم اعظمی قاسمی کا کہنا تھا کہ:
فسق یزید کے سلسلے میں اہل سنت والجماعت کے تین اقوال ہیں۔
1۔ عام محدثین، مورخین اور علماء کا موقف ہے کہ یزید فاسق ہے۔ 
سببِ فسق یزید اور وقت میں ان کے مابین اختلافات ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ یزید حضرت معاویہ ہی کے دور شراب وغیرہ چھپ کر پیتا تھا، خلافت کے وقت اس کا فسق واضح ہوگیا، یہی وجہ بعض لوگ حضرت حسین کے بیعت نہ کرنے کا سبب فسق یزید قرار دیتے ہیں۔ 
2۔ یزید واقعہ کربلا یا بالفاظ دیگر قتل حسین کی وجہ سے فاسق ہے۔ 
3۔ یزید واقعہ حرہ کی وجہ سے فاسق ہے۔ 
2۔ اہل سنت کا دوسرا قول سکوت کا ہے۔ اس کے قائلین مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ امام احمد ابن حنبل (امام صاحب کی طرف جو لعنت وغیرہ اقوال منسوب ہے امام صاحب نے اس سے رجوع کرلیا تھا، آپ کی وفات سے تین دن قبل جو اقوال آپ سے نقل کئے گئے تھے اس میں یزید کے سلسلے میں سکوت تھا)  
2۔ سکوت کو علامہ ابن تیمیہ نے اصحاب امام احمد اور اس کے علاوہ بہت سارے مسلمانوں کی رائے قرار دی ہے۔  
3۔ امام مجدالدین عبدالسلام ابن تیمیہ ۔۔۔۔ جد امجد علامہ ابن تیمیہ  بحوالہ مجموع الفتاوی 
4۔ علامہ احمد بن مصطفی متوفی 922 ھجری 
5۔ موجودہ دور کے محتاط علماء کا قول بھی سکوت ہے۔
6۔ دارالعلوم دیوبند کا بھی حالیہ فتوی سکوت کا ہے۔ 
3۔ اہل سنت کا تیسرا قول ہے کہ یزید فاسق نہیں تھا۔ اس کے قائلین درج ذیل ہیں: 
1۔ حجۃ الاسلام امام غزالی بحوالہ وفات الاعیان ج 3 ص 288
2۔ ابوبکر ابن العربی  ۔۔۔۔ العواصم القواصم 
3۔ محدث امام عبدالمغیث بن زہیر علوی متوفی 583 ھجری 
4۔ علامہ نورالدین حنفی رامپوری بحوالہ نزھۃ الخواطر ج 7 ص 514 
5۔ علامہ دستی  بحوالہ مجموع الفتاوی لابن تیمیہ 
6۔ محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمی 
7۔ مولانا منظور نعمانی 
8۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی 
9۔ مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی
10۔ مولانا رشید الاعظمی 
11۔ ڈاکٹر مسعود قاسمی
عدم اجماع/ اتفاق پر انہوں نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ علامہ ابن تیمیہ نے یزید کے سلسلے میں تینوں قول کو اہل سنت والجماعت کے اقوال قرار دیئے ہیں. لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل سنت کے مابین اس میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کا کسی بھی قول میں اختلاف اتفاق و اجماع نہیں ہے۔ بحوالہ مجموع الفتاوی۔ 
2۔ موصوف مولانا عبدالاحد صاحب قاسمی اگر اجماع برفسق سے لغوی معنی لے رہے ہیں تو ٹھیک ہے، لیکن اگر اجماع سے مراد فقہی اصطلاح ہے تو اجماع کہنا ہی غلط ہے۔ فسق یزید نہ تو کوئی فقہی مسئلہ ہے نہ دینی کہ اس کے لئے فقہی اصطلاح کے مطابق اجماع کیا جائے. یہ محض ایک تاریخی مسئلہ ہے۔ اگر بالفرض مان لیا جائے یہ دینی مسئلہ ہے۔ پھر اس میں امام غزالی، احمد بن حنبل اور متعدد کبار علماء کا اختلاف رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے جمہور کی رائے کہا جاسکتا ہے، اجماع نہیں۔ 
بالفرض اگر مان لیا جائے کہ عدم فسق کا قول اہل سنت والجماعت کا نہیں ہے۔ تو بھی اجماع و اتفاق ثابت نہیں ہوگا کہ اہل سنت والجماعت کا سکوت کا بھی ایک قول ہے جس میں امام احمد ابن حنبل، اکثر حنابلہ اور خود آج کے محتاط علماء بھی شامل ہیں۔ لہذا اس صورت میں اہل سنت کے درمیان اس مسئلہ میں دو رائے ہوگی اکثریت فسق یزید کے قائلین کی، اور اقلیت قائلین سکوت کی۔ لہذا اجماع و اتفاق کا دعوی اس صورت میں بھی باطل ہوجاتا ہے۔ (بعض دلائل انہوں نے نجی نمبر پر بھی ارسال کئے ہیں)
فسق یزید کے اہل سنت والجماعت کے عقیدے میں سے نہ ہونے کے دلائل کے ذیل میں اس فریق کا کہنا تھا کہ:
1۔ اہل سنت والجماعت کے عقائد پر لکھی گئی جو معتبر کتابیں ہیں اس میں کہیں فسق یزید کے مسئلہ کا ذکر نہیں ہے۔ (ممکن ہے ایک دو میں ہو لیکن اتنے اہم مسئلہ میں ایک دو مصنفین کے لکھنے کی وجہ سے اس کو عقائد اہل سنت میں نہیں شمار کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ عہدسلف کے اہم علماء کے اقوال کو مدنظر رکھا جائے گا۔ نہ کہ دسویں صدی کے بعد کوئی شخص اس کا دعوی کرے تو اس کو مان لیا جائے)
ذیل میں چند کتابیں ملاحظہ فرمائیں:
1۔ الفقه الأكبر لأبي حنيفة
2۔ العقائد النسفیۃ
3۔ عقیدۃ الطحاوی
2۔ شاہ ولی محدث دہلوی نے اہل سنت والجماعت سے  داخل اور خارج ہونے کے سلسلے میں دلیل قطعی سے ثابت عقائد و مسائل کو قرار دیا ہے۔ نہ کہ فروعی، غیر دینی، اور دلیل غیرقطعی سے ثابت چیزوں کو۔۔۔۔۔۔ تفصیل 'حجۃ اللہ' کے ابتدائی صفحات میں ملاحظہ فرمائیں۔ 
3: مولانا عبدالاحد قاسمی صاحب نے جن مورخین و محدثین اور فقہاء و علماء کی عبارتیں فسق یزید پر پیش کی ہے۔ بجز ایک دو کے کسی نے بھی فسق یزید کو عقائد میں نہیں شمار کیا ہے؛ جب کہ وہ فسق یزید کے قائل تھے۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ جمہور محدثین، مورخین اور فقہاء کے بقول فسق یزید کا تعلق عقائد سے نہیں ہے۔ 
خلاصہ کے طور پہ اس فریق کا کہنا تھا کہ فسق یزید کا تعلق سنیت سے نہیں ہے بلکہ تحقیق سے ہے، سو جس کے نزدیک دلائل سے فسق یزید ثابت ہو اور وہ اسے فاسق مانتا ہو تو وہ بھی سنی ہے اور جس کے نزدیک دلائل قابل اطمینان نہ ہوں اور وہ فاسق نہیں مانتا تو وہ بھی سنی ہے۔ کوئی سکوت کررہا ہے تو وہ بھی سنی یے۔ اس لئے ہم سے یہ مطالبہ نہ کیا جائے کہ عدم فسق یا سکوت ثابت کرو بلکہ جو لوگ فسق یزید کا عقیدہ سنیت اور دیوبندیت کے لئے لازم قرار دیتے ہیں ان سے مطالبہ ہوگا کہ ثابت کیجئے کہ فسق یزید سنیت کا جز ہے۔ علاوہ ازیں اس فریق نے امام غزالی اور علامہ ابن صلاح کی عبارات سے بھی فسق یزید کی تردید ثابت کی۔
یزید اور فسق یزید 
—————
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کے فرزند کا پورا نام "يزيد بن معاوية بن أبي سفيان بن حرب بن أميّة الأموي الدمشقي" ہے.
23 رمضان سن 26 کو پیدا ہوا، بروز منگل 14 ربيع الأول سن 64 ہجری کو وفات ہوئی، 15 رجب 60 ہجری سے 14 ربيع الأول 64 ہجری (قریب چار سال) تک فرماں روا اور تخت نشیں رہا.
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی صحیح تادیب وتربیت کا شروع سے بے حد خیال فرمایا تھا، چنانچہ انہوں نے اپنی مطلقہ بیوی والدۂِ یزید "میسون بنت بحدل الکلبیہ" (تاريخ دمشق لابن عساكر - تراجم النساء - (ص 397-401) جوکہ اعلی خاندانی پس منظر اور حسب ونسب رکھنے والی خاتون تھیں، کے حوالے عرب کے اس وقت کے دستور کے مطابق اس مقصد سے کیا کہ یزید اپنی ماں کے ہمراہ دیہات میں رہے اور وہاں کی زبان، فصاحت، شجاعت، بہادری، گھڑسواری، غیرت وحمیت، شرافت ومروت سے آراستہ ہوسکے، والدہ کے ساتھ طویل عرصہ گزارنے کے بعد پھر والد بزرگوار کے زیرتربیت و نگرانی رہنے لگا (تهذيب التهذيب لابن حجر (10/207) اپنے والد حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس اس کی تعلیم وتربیت اطمنان کی حد تک مکمل ہوچکی تھی، والد کے ساتھ رہتے ہوئے اس نے اپنے والد سے "من يرد الله به خيراً يفقه في الدين" جیسی حدیث کی روایت بھی کی، پھر اس سے اس کا بیٹا خالد اور عبدالملك بن مروان وغیرہ نے احادیث نقل کی ہیں، اسی باعث ابوزرعہ دمشقی نے صحابہ کے بعد والے طبقے یعنی طبقہ علیا میں اسے شمار کیا ہے. (البداية و النهاية لابن كثير (8/226-227) 
حضرت امیرمعاویہ نے انساب عرب اور عربی زبان وادب کے ماہر "دغفل بن حنظلہ السدوسی الشیبانی" متوفی 65 ہجری کو یزید کی تادیب وتربیت کے لئے باضابطہ اتالیق مقرر فرمایا. (تهذيب التهذيب لابن حجر (3/210) 
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آخر عمر میں فکرمند ہوئے کہ ان کے بعد کون خلیفہ ہوگا، ان کا خیال تھا کہ اگر وہ کسی کو خلیفہ نامزد کرنے سے قبل ہی انتقال کرجائیں تو فتنہ دوبارہ لوٹ آئے گا۔
چنانچہ انہوں نے اس معاملے میں اہل شام سے مشورہ کیا، انہوں نے تجویز پیش کی کہ ان کے بعد خلیفہ بنوامیہ میں سے ہونا چاہئے. چنانچہ انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو نامزد کیا، اور مصر اور باقی ملک سے اس کی منظوری لی گئی، یزید کا نام پاس ہوگیا۔ اس  بابت مشورہ کرنے کے لئے مدینہ بھی بھیجا گیا- وہاں بعض اکابر کی مخالفت پائی گئی، خاص طور پر حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی. (تاريخ الإسلام للذهبي – عهدالخلفاء الراشدين – (ص147-152) و سير أعلام النبلاء (3/186) و الطبري (5/303) و تاريخ خليفة (ص 213)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی رسول، کاتب وحی اور خال المومنین ہیں، انہوں نے اپنے بیٹے کی خود تادیب وتربیت کی، اس کے لئے خصوصی انتظامات کئے، اس کی خاص نگرانی فرمائی، وہ اس کے احوال، اوصاف و اخلاق وعادات سے مکمل واقف و مطمئن تھے-
اگر اس میں اہلیت یا صالحیت نہ ہوتی، یا فسق وفجور کے جراثیم ہوتے تو کیا یہ متصور ہے کہ صحابی رسول فاسق وفاجر کے لئے دوسروں سے  بیعت لیں؟
بلکہ خود حضرت امیر معاویہ کی باتوں پر غور کریں، تو آپ کو اس بات کا ثبوت مل جائے گا کہ ان کے اس اقدام کا مقصد محض عوام کا فائدہ ہے نہ کہ شخصی مفادات کا حصول، کیونکہ انہوں نے اپنی زبان سے خود کہا ہے: 
اللهم إن كنت إنما عهدت ليزيد؛ لما رأيت من فضله، فبلغه ما أملت وأعنه ، وإن كانت إنما حملني حبّ الوالد لولده، وأنه ليس لما صنعت به أهلاً، فاقبضه قبل أن يبلغ ذلك.
(تاريخ الإسلام للذهبي – عهد معاوية بن أبي سفيان – (ص169) و خطط الشام لمحمد كرد علي (1/137)
اے خدا! اگر میں نے یزید کے فضل کی بنیاد پر اسے ولی عہد بنایا ہے  تو آپ اسے میری امیدوں پر پورا اتار دے اور آپ اس کی معاونت فرما، اور اگر اس کی اہلیت کے بغیر محض والد کی محبتِ بیجا (اور موروثیت واقربا پروری وغیرہ) کے باعث ایسا ہوا ہے تو اس تک پہنچنے سے پہلے اس کا کام تمام کردے)۔
صحابی رسول کی زبانی جاری اس دعاء میں دیکھئے! کہ جلیل القدر صحابی رسول یزید کے لئے "فضل" اور "اھل" کی گواہی دے رہے ہیں، جس سے واضح ہے کہ تخت نشیں ہونے تک وہ متصف بالفسق نہیں تھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے میں اپنے بعد امارت کی صلاحیت واہلیت ضرور دیکھی ہوگی، کیونکہ "صاحب البیت اعلم بمافیہ" (صاحب خانہ وہ اپنے گھر کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوتا ہے)۔
علامہ ابن خلدون کہتے ہیں:
والذي دعا معاوية لإيثار ابنه يزيد بالعهد دون سواه، إنما هو مراعاة المصلحة في اجتماع…
بلاذری بیان کرتے ہیں کہ محمد بن علی بن ابی طالب - جو ابن الحنفیہ کے نام سے مشہور ہیں- ایک دن دمشق میں یزید بن معاویہ کے پاس آئے۔ اس کے ساتھ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد اسے وداع کرنے کے لئے، تو یزید نے ان کی بڑی عزت وتکریم کی اور ان سے کہا: اے ابوالقاسم، اگر آپ نے مجھ میں کوئی ناپسندیدہ کردار دیکھا ہو تو بتائیں! میں اس کی اصلاح کرلیتا ہوں اور آپ کی ہدایت و مشورے پہ عمل پیرا ہوتا ہوں، انہوں نے کہا: خدا کی قسم اگر میں آپ میں کوئی برائی دیکھتا تو اس سے ضرور منع کرتا. اللہ کے واسطے آپ کو حق بات کی رہنمائی واطلاع کرتا، کیونکہ اللہ نے اہل علم سے وعدہ لیا ہے کہ وہ لوگوں کو حق بتائیں، اسے ہرگز نہ چھپائیں، اور میں نے آپ سے اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ (انساب الاشرف للبلاذری (5/17)۔
(يروي البلاذري أن محمد بن علي بن أبي طالب - المعروف بابن الحنفية - دخل يوماً على يزيد بن معاوية بدمشق؛ ليودعه بعد أن قضى عنده فترة من الوقت، فقال له يزيد، وكان له مكرماً: يا أبا القاسم، إن كنت رأيت مني خُلُقاً تنكره نَزَعت عنه، وأتيت الذي تُشير به علي ؟ فقال: والله لو رأيت منكراً ما وسعني إلاّ أن أنهاك عنه، وأخبرك بالحق لله فيه؛، لما أخذ الله على أهل العلم عن أن يبينوه للناس ولا يكتموه، وما رأيت منك إلاّ خيراً. (أنساب الأشراف للبلاذري (5/17).
امام ابن كثير رحمہ الله (المتوفى 774) نے کہا:
"جب اہل مدینہ یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اور ان کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اور یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمدبن حنفیہ نے ان کی اس بات سے انکار کردیا، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزید شراب پیتا ہے، نماز چھوڑتا ہے. کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیسا تم کہہ رہے ہو، جبکہ میں اس کے پاس جاچکا ہوں اور اس کے ساتھ قیام کرچکا ہوں، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیر کا متلاشی، علم دین کا طالب، اور سنت کا ہمیشہ پاسدار پایا۔ تولوگوں نے کہا کہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہا تھا، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتا تھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جو بات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا؟ اگر ایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو، اور اگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کی ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہے. گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی اس طرح گواہی دینے کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ’’جو حق بات کی گواہی دیں اور انہیں اس کا علم بھی ہو‘‘، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا۔
(روي ابن كثير أن عبدالله بن مطيع - كان داعية لابن الزبير - مشى من المدينة هو وأصحابه إلى محمد ابن الحنفية؛ فأرادوه على خلع يزيد، فأبى عليهم، فقال ابن مطيع: إن يزيد يشرب الخمر، ويترك الصلاة، ويتعدى حكم الكتاب.
فقال محمد: ما رأيت منه ما تذكرون، قد حضرته وأقمت عنده، فرأيته مواظباً على الصلاة متحرياً للخير يسأل عن الفقه ملازماً للسنة، قالوا: ذلك كان منه تصنعاً لك، قال: و ما الذي خاف مني أو رجا حتى يظهر إليّ الخشوع؟ ثم أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر، فلئن كان أطلعكم على ذلك فإنكم لشركاؤه، وإن لم يكن أطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا، قالوا: إنه عندنا لحق وإن لم نكن رأيناه، فقال لهم: أبى الله ذلك على أهل الشهادة، و لست من أمركم في شيء.
(البداية والنهاية (8/233) و تاريخ الإسلام – حوادث سنة 61-80هـ – (ص274) 
ان دونوں روایتوں میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی، جلیل القدر تابعی، جن کے خانوادے کی درجنوں افراد نے کربلاء کے تپتے ریگستان میں خاک وخون میں تڑپ کر جام شہادت نوش کیا ہو، یعنی محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ نے یزید سے متعلق اس کے فسق و فجور کی اڑائی گئی تمام افواہوں کی تردید کردی اور ایسی باتیں کرنے والوں سے اپنی بات کی دلیل اور سچائی کا ثبوت طلب کیا تو ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا-
تردید فسق کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی؟
یزید کی طرف سے حرمین طیبین کی توہین کی روایت کے بارے میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں: 
"وأما ملوك المسلمين من بني أمية وبني العباس ونوابهم فلا ريب أن أحدا منهم لم يقصد أهانة الكعبة لا نائب يزيد ولا نائب عبد الملك الحجاج بن يوسف ولا غيرهما بل كان المسلمين كانوا معظمين للكعبة وإنما كان مقصودهم حصار ابن الزبير والضرب بالمنجنيق كان له لا للكعبة ويزيد لم يهدم الكعبة ولم يقصد إحراقها لا وهو ولا نوبه باتفاق المسلمين۔"
"جہاں تک مسلم بادشاہوں بنوامیہ، بنوعباس اور ان کے نائبین کی بات ہے تو بلاشبہہ ان میں سے کسی ایک نے بھی خانہ کعبہ کی اہانت کبھی نہ کی، نہ تو یزید کے نائب نے نہ عبدالملک الحجاج بن یوسف کے نائب نے، اورنہ ہی ان کے علاوہ کسی نے، بلکہ مسلمان تو ہمیشہ سے کعبہ کی تعظیم ہی کرتے آئے ہیں، ان میں سے بعض کا مقصود صرف یہ تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو گرفتارکیا جائے، اور منجنیق کا استعمال عبداللہ بن زیبر رضی اللہ عنہ ہی کی خاطر ہوا تھا نہ کی خانہ کعبہ کی خاطر، اور یزید نے ہرگز بیت اللہ کو منہدم (شہید) نہیں کیا اور نہ ہی اسے جلانے کا ارادہ کیا، یقینا نہ تو ایسا اقدام یزید نے کیا اور نہ ہی اس کے نائبین نے کیا. اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق واجماع ہے۔" [منهاج السنة النبوية 4/ 577 ]
واقعہ حرہ کے موقع سے جب ابن زبیر کی قیادت میں اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ دی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  نے فرمایا تھا:
يُنْصَبُ لِكُلِّ غادِرٍ لِواءٌ يَومَ القِيامَةِ وإنَّا قدْ بايَعْنا هذا الرَّجُلَ علَى بَيْعِ اللَّهِ ورَسولِهِ، وإنِّي لا أعْلَمُ غَدْرًا أعْظَمَ مِن أنْ يُبايَعَ رَجُلٌ علَى بَيْعِ اللَّهِ ورَسولِهِ ثُمَّ يُنْصَبُ له القِتالُ، وإنِّي لا أعْلَمُ أحَدًا مِنكُم خَلَعَهُ، ولا بايَعَ في هذا الأمْرِ، إلَّا كانَتِ الفَيْصَلَ بَيْنِي وبيْنَهُ. (صحيح البخاري. 7111).
اس روایت کے پیش نظر گوکہ ہم تاویل کرتے ہوئے اس اقدام کا جواز ڈھونڈ نکالیں؛ نیز واقعہ کربلاء میں خانوادہ نبوی کو تہ تیغ کرنے میں گوکہ یزید کا عمل دخل ہونا روایتوں سے ثابت نہیں ہوپاتا ہے- کیونکہ بخاری کی روایت کے بموجب اہل عراق میں سے کسی نے ابن عمر سے مچھر کے خون کی نجاست کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ عراقیوں نے امام حسین کو قتل کردیا اور یہاں مچھر کے خون کا مسئلہ پوچھ رہے ہو؟ 
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قتل حسین کے ذمہ دار عراق کے بلوائی تھے جو دھوکہ دیکر امام کو بلائے اور مدد کرنے سے مکر گئے:
روي البخاري عن شعبة عن محمد بن أبي يعقوب سمعت عبدالرحمن بن أبي نعيم: أن رجلاً من أهل العراق سأل ابن عمر عن دم البعوض يصيب الثوب؟ فقال ابن عمر: انظر إلى هذا يسأل عن دم البعوض و قد قتلوا ابن بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الحسن و الحسين هما ريحانتاي من الدنيا. الفتح (10/440) وصحيح سنن الترمذي (3/224) . 
شيخ الإسلام ابن تيمية – رحمه الله کہتے ہیں: إن يزيد بن معاوية لم يأمر بقتل الحسين باتفاق أهل النقل ولكن كتب إلى ابن زياد أن يمنعه عن ولاية العراق، ولما بلغ يزيد قتل الحسين أظهر التوجع على ذلك وظهر البكاء في داره  إلخ (منهاج السنّة 4 / 473) 
علامہ ابن صلاح لکھتے ہیں: "لم يصح عندنا أنه أمر بقتله – أي الحسين رضي الله عنه -، والمحفوظ أن الآمر بقتاله المفضي إلى قتله – كرمه الله – إنما هو عبيد الله بن زياد والي العراق إذ ذاك"
(فتاوى ومسائل ابن الصلاح 1/216-219)
امام غزالی  – رحمه الله - فرماتے ہیں: "فإن قيل هل يجوز لعن يزيد لأنه قاتل الحسين أو آمر به؟ قلنا: هذا لم يثبت أصلاً فلا يجوز أن يقال إنه قتله أو أمر به ما لم يثبت ، فضلاً عن اللعنة ، لأنه لا تجوز نسبة مسلم إلى كبيرة من غيرتحقيق." (إحياء علوم الدين 125/3)
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
وليس كل ذلك الجيش كان راضياً بما وقع من قتله – أي قتل الحسين – بل ولا يزيد بن معاوية رضي بذلك والله أعلم ولا كرهه، والذي يكاد يغلب على الظن أن يزيد لو قدر عليه قبل أن يقتل لعفا عنه، كما أوصاه أبوه، وكما صرح هو به مخبراً عن نفسه بذلك ، وقد لعن ابن زياد على فعله ذلك وشتمه فيما يظهر ويبدو" (البداية والنهاية 221/8)
لیکن قاتلین سے سختی سے نمٹنے، انہیں قرار واقعی سزا دینے یا اپنے کمانڈروں کو صاف صاف قتل حسین سے منع کرنے کا فرمان پہلے سے نہ بھیجنے جیسے حقائق سے پہلو تہی کرنا یا کمزور و نکمی تاویلات رکیکہ کے سہارے دلوں کو طفل تسلی دیتے ہوئے ان حقائق سے صرف نظر کرنا بڑا مشکل ہے. ٹھیک ہے یزید نے امام حسین کی نعش دیکھ کر غضبناک ہوا ہو. اس کی آنکھیں بھر آئی ہوں. ابن زیاد کو بد دعائیں دی ہوں. لیکن فرماروائے سلطنت ہونے کی حیثیت سے یزید کو بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا. قلمرو میں خچر مرجانے پہ حکمراں اور خلیفہ خود کو مسئول سمجھتے ہوئے قابل احتساب سمجھ  سکتا ہے تو اتنی بڑی شہادت سے یزید کا پلو جھاڑ لینا کسی طور سمجھ نہیں آتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول تاریخ میں ثبت ہے: "فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی مرجائے تو اس کا سوال عمر سے ہوگا."
اجماع اور اتفاق 
———————-
کسی چیز کا پختہ ارداہ کرلینے کو لغوی اعتبار سے اجماع کہتے ہیں:
"فأجمعوا أمركم" يونس/ 71.)
وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ (یوسف: 102)
رحلت نبی کے بعد امت محمدیہ کے مجتہدین کا کسی زمانے میں کسی  امر پر اتفاق کرنے کو کو اصطلاحاً اجماع کہتے ہیں:
"هو اتفاق مجتهدي أمة محمد - صلى الله عليه وسلم - بعد وفاته في حادثة على أمر من الأمور في عصر من الأعصار"انتهى من" البحر المحيط " للزركشي (6 / 379).
انعقاد اجماع کے لئے من جملہ شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ جس زمانے میں اجماع منعقد ہوا ہو اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا اس امر حادث پر اتفاق ہوگیا ہو. 
اگر بعض مجتہدین کسی واقعہ میں اختلاف کریں یا کسی خاص علاقہ کے مجتہدین اتفاق کریں، دوسرے علاقہ کے نہیں تو پہر اسے اجماع اصطلاحی نہیں کہا جائے گا 
پوری امت مسلمہ کے تمام مجتہدین پیش آمدہ کسی مسئلے پر اتفاق کرلیں تب ہی وہ شرعی واصطلاحی اجماع ہوگا، اگر بیک وقت تمام کا اتفاق نہ ہوسکے. تو اسے اجماع اصطلاحی نہیں بلکہ "اتفاق" کہیں گے. "لاتجتمع امتی علی الضلالۃ" جیسی حدیث میں امت مسلمہ کی جس عصمت کی بات کی گئی ہے اور جوکہ حجیت اجماع کی نبوی دلیل بھی ہے، اس میں "امۃ" کو تمام امت پہ محمول کرنا "اکثر" افراد امت پہ محمول کرنے سے زیادہ احوط ہے. اکثر افراد امت کسی حکم حادث پہ متفق ہوں سب کے سب نہیں تو ان کا ضلالت سے محفوظ رہنا متیقن نہیں، پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہی ضلالت سے حفاظت کا ضامن ہوگا۔
مانعین زکات سے قتال نہ کرنے پر اکثر افراد امت کا اتفاق تھا، جبکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اکیلے اس سے اختلاف کرتے ہوئے قتال پہ مصر تھے، تو جس طرح اکثر صحابہ کا اتفاق علی عدم القتال اجماع نہیں کہلایا؛ کیونکہ ایک مجتہد، خلیفہ وقت کا اس سے اختلاف تھا، اسی طرح اگر کسی مسئلے میں تمام مجتہدین کا اتفاق نہ ہوسکا تو وہ بھی اصطلاحی اجماع نہیں کہلائے گا، لغوی اعتبار سے مجازاً اجماع بمعنی اتفاق کہدیا جائے تو مضائقہ نہیں۔
تفسیق، تکفیر اور لعن یزید کا معاملہ اصول دین میں سے بالکل نہیں ہے. اصول بزدوی میں امامت کی بحث کے ذیل میں ہے. 
لم يصح منه (یزید) تلك الأسباب (أسباب الكفر) ولاحاجة بأحد إلى معرفة حاله؛ فإن الله تعالى أغنانا عن ذالك (أصول الدين للبزدوي، مسألة الإمامة 205)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
[وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ إذْ ذَاكَ يَتَكَلَّمُ فِي يزيد بن معاوية، وَلَا كَانَ الْكَلَامُ فِيهِ مِنْ الدِّينِ (لأن يزيد بن معاوية إنما بويع له بالخلافة بعد وفاة أبيه معاوية). كتاب شرح الوصية الكبرى، لابن تيمية. الراجحي ص ١٠)
امام احمد بن حنبل اور علامہ کیا ہراسی شافعی سے تکفیر یزید کا منقول ہونا (دیکھئے فتاوی محمودیہ (48/6) بذات خود بھی دلیل ہے کہ یزید سے متعلقہ امور میں انہماک و اشتغال نہ امور دین میں سے ہے نہ ہی یہ مدار سنیت ہے. جب تکفیر ولعن مخرج سنیت نہیں، تو تردید تفسیق کیسے ہادم سنیت ہوسکتی ہے؟ اجماع کے حوالے سے اوپر کی سطروں میں مذکور قدر ضرورت مختصر لیکن بنیادی نوٹ کو اگر ہم ملحوظ رکھیں تو یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ فسق کی روایات کو زیادہ سے زیادہ "اتفاقی و اکثریتی قول" کہہ سکتے ہیں کہ درجنوں بلکہ سینکڑوں علماء نے بیشک اپنی کتابوں میں اسے "نقل" کیا ہے؛ لیکن اصطلاحی معنوں میں اسے اجماعی کہنا صحیح نہیں ہے۔ یزید سے نفرت ومحبت ہر دو چیزوں میں دامنِ اعتدال امت کے ہاتھ سے چھوٹا ہے۔ کچھ لوگوں نے  نفرت میں دنیا بھر کی برائیاں اس میں جمع کردی ہیں اور شیعیت زدہ اور تقیہ باز کمزور وضعیف مورخین کی انتہائی بودی وغیرثابت تاریخی روایتوں کے زیراثر یزید کو مجمع الفسق والفجور کہہ ڈالے ہیں. جبکہ کچھ لوگ اسے حق پرست، دودھ کا دھلا ہوا اور مقدس گائے خیال کرکے اس کی مدح خوانی اور قصیدہ گوئی میں لگے رہتے ہیں. فسق وفجور کی روایات نقل در نقل ہوکے حد وحساب سے ما وراء ہوگئی ہیں، فاسق وفاجر کہے جانے کی اصل بنیاد بعض تاریخی روایات ہیں جو قصہ گو اور جعل ساز و مجہول الحال راویوں نے بیان کی ہیں۔ جب یہ روایات مسترد ہوجاتی ہیں تو تفسیق کے اقوال بھی قابل غور ٹھہر جاتے ہیں. امور دین اور مسائل اعتقادیہ میں سے نہ ہونے کے باعث اس میں "انہماک بیجا" کو ناپسند کیا گیا ہے۔ یہی احوط واسلم و پسندیدہ طریق بھی ہے. فسق وفجور کی جو روایات عام کی گئی ہیں انہیں سن کے آگے چلتا کردینے کے بالمقابل ان کی تحقیق کرنا اور فنی اعتبار سے الزامات بے جا کی تردید کرنا سکوت اور کف لسان کے منافی نہیں ہے۔ 
علم وتحقیق کے اصول پہ فسق وفجور کی روایات ثابت نہیں ہوپارہی ہیں. صاحب واقعہ امام حسین، خانوادہ حسینی کے چشم دید گواہ، بعض صحابہ اور تابعین اجلاء کی شہادتوں سے ان الزامات کی تردید ہوتی ہے. صحابہ کرام اور اجلاء تابعین کی تردید تفسیق کے سامنے سالوں بعد کے متکلم فیہ مورخین یا علماے اہل سنت کے اتفاقی "نقلِ تفسیق" ثانوی درجے کی چیز ہوگی. خوب واضح رہنا چاہیے کہ نقل تفسیق الگ ہے. اور اثبات فسق امر آخر. تفسیق، تکفیر، یا لعن یزید اضافی اور ذیلی چیزیں ہیں 
جن اکابر کے یہاں تحقیق و تفتیش سے ثابت ہوا، انہوں نے تفسیق کی، جن کے یہاں تفسیق الزام محض قرار پائی. انہوں نے اس کے ثبوت سے انکار کرکے تفسیق کی تردید کی۔ ابھی (15.08.2022) ہم نے شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ سے ٹیلیفونک گفتگو میں استفسار کیا تو حضرت نے فرمایا کہ ہمیں خود پتہ نہیں کہ ہم خود فاسق ہیں کہ نہیں؟ ہم ایک فرزند صحابی جلیل کی تفسیق کے پیچھے کس منہ سے پڑیں؟ "تلک أمة قد خلت" الآية.  
پھر ہم نے پوچھا کہ اگر روایات تفسیق درجہ صحت واعتبار کو نہیں پہنچتیں تو ہمارے اکابر نے عمومی طور پہ اسے فاسق کیوں لکھا؟ 
تو حضرت نے فرمایا: انہوں نے فاسق کہا ہے تو ان کی نظر وتحقیق میں کوئی بنیاد ہوگی! ہماری نظر میں کوئی بنیاد اگر نہیں ہے تو ہم کیسے فاسق کہدیں؟
یزید بن معاویہ کے فسق وفجور کی ساری روایتوں کی بنیاد واقدی، ابومخنف، عوانہ بن الحکم اور عمر بن شبہ ہے۔ اور یہ رواۃ ناقابل اعتبار و استناد ہیں (واقدی اور ابومخنف متروک الحدیث ہے، عوانہ بن الحکم کو حافظ ابن حجر نے بنو امیہ کے لئے خبریں گھرنے والا قرار دیا ہے، عمر بن شبہ نے یزید کا زمانہ نہیں پایا ہے، لہذا شراب نوشی کی روایت منقطع ہوئی۔
یزید کے جوانی میں شراب نوشی کی روایت (يزيد كان يشرب الخمر في حداثته، فأرشده أبوه إلى شربها ليلاً فقط۔ أخرجها ابن عساكر وغيره من طريق محمد بن زكريا الغلابي) محمد بن حفص بن عائشة  نے بھی کی ہے؛ لیکن بخاری اور ابو حاتم کے یہاں یہ مجہول راوی ہے، اس کی سند میں محمد بن زکریا غلابی ہے جسے دارقطنی نے واضع حدیث قرار دیا ہے، 
پھر یہ بات کیسے متصور ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کو شراب پینے اور رات کو چھپ کر پینے کی ترغیب واجازت دیدیں؟ 
یہ خال المومنین اور کاتب وحی ہیں، یہ خود اس حدیث رسول کے راوی ہیں کہ: "من شرب الخمر فاجلدوه". ("جو شراب پیے، اسے کوڑے مارو۔") 
اسی طرح "يحيى بن فليح بن سليمان المدني" نے عمر بن حفص کے بارے میں جو خبر دی ہے کہ انہوں نے جب مدینہ پاک میں منبر پہ کھڑے ہوکر یزید کی شراب نوشی اور ترک نماز کی گواہی دی، تب اہالیان مدینہ نے یزید کی بغاوت کا اعلان کردیا۔ 
(أخبرنا ابن فليح أن عمرو بن حفص وفد على يزيد فأكرمه، وأحسن جائزته، فلمّا قدم المدينة قام إلى جنب المنبر، وكان مرضياً صالحاً. فقال: ألم أجب؟ ألم أكرم؟ والله لرأيت يزيد بن معاوية يترك الصلاة سكراً. فأجمع الناس على خلعه بالمدينة فخلعوه"
یہ روایت بھی اس لئے درست نہیں ہے کہ ابن حزم کے نزدیک ابن فلیح مجہول ہے، نیز یہ روایت منقطع بھی ہے؛ کیونکہ فلیح کی پیدائش اس واقعہ کے کافی زمانہ بعد سنہ ۹۰ ہجری میں  ہوئی ہے، اور یہ اپنی پیدائش سے پہلے والا واقعہ بیان کررہا ہے، درمیان میں لمبا انقطاع زمانی ہے. جبکہ دوسری طرف شہادت کربلاء کا متاثرہ فریق، امام حسین کے بھائی اور عینی شاہد محمد بن الحنفیہ یزید پر عائد کردہ ان الزامات کی صریح تردید کررہے ہیں. اب ایک مجہول راوی کی منقطع روایت پہ اعتماد کیا جائے یا شہید کربلاء کے حقیقی بھائی کی تردید پر؟ چلئے! تھوڑی دیر کے لئے انہیں بھی چھوڑ دیا جائے! کیا خود حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے، مدینہ، پھر مکہ سے کربلاء تک کے پورے سفر اور اپنی پوری تحریک کے درمیان کبھی بھی یزید کو  فاسق وفاجر یا شرابی کبابی کہا ہے؟ اس بابت کوئی ایک مستند ومعتبر روایت حوالے میں پیش کی جاسکتی ہے؟ علی بن حسین اپنے والد کی شہادت کے بعد ایک ماہ کے قریب یزید کے پاس مقیم رہے. واپسی پر کیا انہوں نے یزید کے فسق وفجور. بے دینی وبے راہ روی کی بابت کوئی ایک بات بھی کہی ہے؟ 
سانحہ کربلاء یقیناً تاریخ کا سیاہ ودل دوز حادثہ تھا جس نے سب کا کلیجہ چھلنی کردیا، ان تمام ناقابل بیان قلق واضطراب کے باوجود اس کے بعد حدود سلطنت میں کہیں بھی ردعمل میں تفسیقی منجنیق کے گولے داغے گئے؟ یا تفسیق وخون ریزی کو بنیاد بناکر یزید کے خلاف کہیں بغاوت کی گئی؟ 
فاجتمعت بنو أمية في دار مروان بن الحكم، وأحاط بهم أهل المدينة يحاصرونهم، واعتزل الناس علي بن الحسين زين العابدين، وكذلك عبدالله بن عمر بن الخطاب لم يخلعا يزيد، ولا أحد من بيت ابن عمر.
وقد قال ابن عمر لأهله: لا يخلعن أحد منكم يزيد فتكون الفيصل ويروي الصيلم بيني وبينه، (البداية والنهاية 218/8)
مدینہ والوں نے جب یزید کی بیعت توڑدی تھی تو اس وقت علی بن حسین زین العابدین اور عبداللہ بن عمر اس بغاوت سے علیحدہ رہے، انہوں نے یزید کی بیعت نہیں توڑی۔ ابن عمر کے گھروالوں میں سے بھی کسی نے بیعت نہ توڑی، انہوں نے اپنے گھر والوں کو نقض بیعت سے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے بیعت توڑی تو میرے اور اس کے درمیان جدائی ہوجائے گی)۔
واقدی، ابومخنف، عوانہ بن الحکم، عمر بن شبہ، محمد بن زکریا غلابی، ابن فلیح، محمد بن حفص بن عائشة  وغیرہم کی ضعیف وغیرثابت طرق وروایتوں کی بنیاد پر فسق وفجور کی تاریخی روایتیں تسلیم شدہ حقائق کے بطورنقل درنقل بیان کی جارہی ہیں؛ لیکن شہید امام عالی مقام کے خانوادے کے معتبر افراد کی شہادت قابل سماع نہیں ٹھہر رہی ہے! آخر کیوں؟ 
اگر یزید واقعی اتنا ہی بے دین وفاجر اور ناہنجار تھا تو ابن زیاد کی فوج سے آمنا سامنا ہونے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے پاس جاکر اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لئے کیوں تیار ہوگئے تھے؟ 
قال حصین فَحَدَّثَنِي هلال بن يساف أن ابن زياد أمر بأخذ مَا بين واقصة إِلَى طريق الشام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يدعون أحدا يلج وَلا أحدا يخرج، فأقبل الْحُسَيْن وَلا يشعر بشيء حَتَّى لقي الأعراب، فسألهم، فَقَالُوا:
لا وَاللَّهِ مَا ندري، غير أنا لا نستطيع أن نلج وَلا نخرج، قَالَ: فانطلق يسير نحو طريق الشام نحو يَزِيد، فلقيته الخيول بكربلاء، فنزل يناشدهم اللَّه والإسلام، قَالَ: وَكَانَ بعث إِلَيْهِ عُمَر بن سَعْدٍ وشمر بن ذي الجوشن وحصين ابن نميم، فناشدهم الْحُسَيْن اللَّه والإسلام أن يسيروه إِلَى أَمِير الْمُؤْمِنِينَ، فيضع يده فِي يده
(تاریخ طبري بروایت حصین عن ہلال بن یساف  5/392، البداية والنهاية 8/170)
ابن اثیر کی روایت میں تین باتوں میں سے ایک کے اختیار کی بات ہے:
بل قال له: اختاروا مني واحدة من ثلاث : إما أن أرجع إلى المكان الذي أقبلت منه ، وإما أن أضع يدي في يد يزيد بن معاوية فيرى فيما بيني وبينه رأيه، وإما أن تسيروا بي إلى أي ثغر من ثغور المسلمين شئتم فأكون رجلا من أهله لي ما لهم وعلي ما عليهم. (الکامل في التاريخ لإبن الأثير، ثم دخلت سنة إحدى وستين 157/3)
کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا ہے کہ امام حسین یزید سے بہتر سلوک کے امیدوار تھے اور اسے ظالم سفاک یا یا فاسق وفاجر نہیں سمجھتے تھے. بلکہ انہوں نے یزید کو "امیرالمؤمنین" کہا ہے. 
علامہ ذہبی کا یزید کو فاسق وفاجر، ناصبی، قاتل حسین اور شراب نوش وغیرہ کہنا اس وجہ سے قابل سماع نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی اس جرح کی کوئی بنیاد و دلیل نہیں بتائی ہے. اگر بنیاد بتاتے تو ان کی بات بھی قابل سماع ہوتی. جبکہ ان کے بالمقابل ثقہ ومعتبر شخصیت امام لیث بن سعد نے یزید کو امیرالمومنین کہا ہے۔
امام ابوبکر بن العربی (المتوفی: 543ھ) کہتے ہیں:
"فإن قيل. كان يزيد خمارًا. قلنا: لا يحل إلا بشاهدين، فمن شهد بذلك عليه بل شهد العدل بعدالته. فروى يحيى بن بكير، عن الليث بن سعد، قال الليث: "توفي أميرالمؤمنين يزيد في تاريخ كذا "فسماه الليث "أميرالمؤمنين" بعد ذهاب ملكهم وانقراض دولتهم، ولولا كونه عنده كذلك ما قال إلا" توفي يزيد"
اگر کہا جائے کہ یزید شرابی تھا تو ہم کہتے ہیں کہ بغیر دو گواہوں کے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی، تو کس نے اس بات کی گواہی دی ہے؟ بلک عادل لوگوں نے تو یزید کے عدل کی گواہی دی ہے۔ چنانچہ یحییٰ بن بکیر نے روایت کیا ہے کہ امام لیث بن سعد ؒ نے کہا: امیرالمومنین یزید فلاں تاریخ میں فوت ہوئے تو یہاں پر امام لیث ؒ نے یزید کو "امیرالمومنین" کہا ہے اور وہ بھی ان کی حکومت اور ان کا دور ختم ہونے کے بعد ۔ اگر ان کے نزدیک یزید اس درجہ قابلِ احترام نہ ہوتا تو وہ صرف یوں کہتے کہ یزید فوت ہوئے تھے۔" [العواصم من القواصم ص: 228]
بلاذری کی درج ذیل روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک سلسلہ گفتگو میں یزید کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی "صالح اولاد" قرار دے کر اس کی حکومت واطاعت تسلیم کرنے کی تلقین کی ہے: 
وإنّ ابنه يزيد لمَن صالحي أهله، فالزموا مجالسكم واعطوا طاعتكم وبيعتكم ( أنساب الأشراف 1/289 ق 4 تح ـ احسان عباس)
علاوہ ازیں حضرت نعمان بن بشیر اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابی رسول کو مختلف اوقات میں مختلف ذمہ دارانہ حکومتی حیثیتوں اور عہدوں کے ساتھ یزید کے ساتھ لمبی مصاحبت اور ہم نشینی رہی. شب وروز کے واقعات و معمولات کو قریب سے دیکھنے، جھانکنے اور پرکھنے کا اوروں کی بہ نسبت انہیں بہتر موقع یقیناً ملا ہوگا؛ لیکن وہ تو یزید کے فسق وفجور پہ مطلع نہیں ہوسکے، لیکن سیاسی افیون میں بد مست جانبدار مورخین ان چیزوں پہ مطلع ہوگئے۔
واقعہ حرہ کے موقع سے جب ابن زبیر کی قیادت میں اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ دی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  نے فرمایا تھا:
يُنْصَبُ لِكُلِّ غادِرٍ لِواءٌ يَومَ القِيامَةِ وإنَّا قدْ بايَعْنا هذا الرَّجُلَ علَى بَيْعِ اللَّهِ ورَسولِهِ، وإنِّي لا أعْلَمُ غَدْرًا أعْظَمَ مِن أنْ يُبايَعَ رَجُلٌ علَى بَيْعِ اللَّهِ ورَسولِهِ ثُمَّ يُنْصَبُ له القِتالُ، وإنِّي لا أعْلَمُ أحَدًا مِنكُم خَلَعَهُ، ولا بايَعَ في هذا الأمْرِ، إلَّا كانَتِ الفَيْصَلَ بَيْنِي وبيْنَهُ.( صحيح البخاري. 7111).
شیعی فقیہ مطہر حلی المتوفى سنۃ 726 ه نے اپنی كتاب 'منهاج الكرامة' میں یزید کے ظالم ہونے اور اس پر آیت 'ألا لعنة الله على الظالمين' سے استدلال کرتے ہوئے اثبات لعنت کی کوشش کی تھی، اس کے جواب میں ابن تیمیہ نے علی سبیل التسلیم یہ کہا ہے کہ چلو مان لو! کہ یزید ظالم تھا، لیکن مختار ثقفی اور حجاج بن یوسف سے تو بہتر تھا. زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ یزید اور اس جیسا بادشاہ فاسق تھا، اور فاسق معین پہ لعنت کرنا جائز نہیں ہے، جواز لعنت کے لئے اس شخص کا فاسق وظالم ہونا. اس پہ اصرار کرتے ہوئے وفات پانا اور فاسق معین پہ حدیث سے جواز لعنت کو ثابت کرنا پڑے گا. جبکہ شخص معین پہ لعنت کا ثبوت نہیں ہے. لہذا یزید پر بھی لعنت کرنا جائز نہیں ہے. تو ابن تیمیہ نے فسق کی نسبت فریق مخالف کو خاموش ولاجواب کرنے کے لئے کیا ہے. اس لئے نہیں کہ ان کا موقف بھی یہی ہے. 
پورا جواب ملاحظہ فرمائیں:
القول في لعن يزيد بن معاوية:
"القول في لعنة يزيد كالقول في لعنة أمثاله من الملوك الخلفاء وغيرهم، ويزيد خيرٌ من غيره: خيرٌ من المختار بن أبي عبيد الثقفي أمير العراق، الذي أظهر الإنتقام من قتلة الحسين؛ فإن هذا ادعى أن جبريل يأتيه. وخير من الحجاج بن يوسف؛ فإنه أظلم من يزيد باتفاق الناس.
ومع هذا فيُقال: غاية يزيد وأمثاله من الملوك أن يكونوا فساقاً، فلعنة الفاسق المعيّّن ليست مأموراً بها، إنما جاءت السنة بلعنة الأنواع، كقول النبي صلى الله عليه وسلم: (لعن الله السارق؛ يسرق البيضة فتقطع يده). (منهاج السنة ص 362)
ابن تیمیہ کا واضح موقف فتاوی میں مذکور ہے- 
ولم يكن مظهرا للفواحش كما يحكي عنه خصومه (فتاوى ابن تيمية ح‍ ٣ / ٤١٠)
(یزید بن معاویہ فواحش کا اعلانیہ مرتکب نہیں تھا جیسے کہ اس کے دشمن اس کے متعلق بیان کرتے ہیں)
ابن تیمیہ کا یہی دو ٹوک موقف ہے، صیغہ تمریض کے ساتھ 'منہاج السنہ' میں جو فسق کی نسبت یزید اور دیگر ملوک کی طرف کی گئی ہے اس کا محمل ومصداق دوسرا ہے. 
اس ذیل میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ لعنت کے لئے پہلے فسق وظلم ثابت کرنا پڑتا ہے. جہاں لعنت کی نفی ہوگی وہاں تبعاً فسق وظلم کی بھی نفی ہوتی ہے. لہذا تردید فسق سے لعنت کی بحث کو خارج نہیں کیا جاسکتا ہے۔
خلاصہ کلام
——————
خلاصہ یہ ہے کہ احتیاط پر مبنی موقف تو سکوت کا ہے لیکن تحقیق پر مبنی موقف تردید فسق ہے. مسلمان میں عدل اصل ہے اور فسق اس کی نفی ہے، بغیر مضبوط وثابت دلائل کے تفسیق مسلم میں احتیاط برتنے کی ضروت ہے. 
تفسیق کیا؟ تکفیر ولعن یزید  بھی اگر کوئی کرے پھر بھی اسلام سے خارج نہیں ہوگا 
متعدد اہل بیت، اجلاء تابعین اور صحابہ سے یزید کے خلاف پھیلائے گئے الزامات فسق کی تردید ثابت ہے، اس کے سامنے شمس الدین ذہبی، ابن الجوزی، محمود آلوسی، قاضی شوکانی، تفتازانی، سیوطی، ابویعلی وغیرھم کی بے دلیل اور مبہم جرح کا اعتبار نہیں، یزید کی تفسیق سے اس کے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تادیب وتربیت اور ان کا اعتماد بھی شکوک وشبہات کی زد میں آئے گا، سدًا لِباب الفتنہ روایات تفسیق کی تحقیق کرنا پڑتی ہے. صحابہ کی معتدبہ جماعت نے جس کے ہاتھ پہ بیعت کی ہو. اجلاء صحابہ جس کے زیرامارت غزوہ قسطنطینیہ میں شریک رہی ہو-
أوَّلُ جَيْشٍ مِن أُمَّتي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لهمْ (صحيح البخاري: 2924، مع الفتح (6/120).
یہ حدیث بتارہی ہے کہ قسطنطینہ کی جنگ میں شریک افراد جنتی اور مستحق مغفرت ہیں، یزید بھی اس جنگ میں ایک دستے کا سپہ سالار تھا، حافظ ابن حجر اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
"قوله‏:‏ ‏(‏يغزون مدينة قيصر‏)‏ يعني القسطنطينية، قال المهلب‏:‏ في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر، ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر۔(الفتح (6/120).
بعض لوگوں کی طرف سے اعتراض کیا جاتا  ہے کہ بخاری شریف میں صراحت نہیں ہے کہ یزید غزوہ قسطنطینیہ میں شریک تھا، تو عرض ہے کہ بخاری میں حضرت عتبان بن مالک کی ایک لمبی حدیث کے ذیل میں یزید کا ارض روم یعنی قسطنطینیہ میں بحیثیت سپہ سالار موجود ہوناثابت ہے، پوری حدیث اس طرح ہے:
كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي ببَنِي سَالِمٍ وكانَ يَحُولُ بَيْنِي وبيْنَهُمْ وادٍ إذَا جَاءَتِ الأمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ، فَجِئْتُ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَقُلتُ له: إنِّي أنْكَرْتُ بَصَرِي، وإنَّ الوَادِيَ الذي بَيْنِي وبيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إذَا جَاءَتِ الأمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ، فَوَدِدْتُ أنَّكَ تَأْتي فَتُصَلِّي مِن بَيْتي مَكَانًا، أتَّخِذُهُ مُصَلًّى، فَقالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: سَأَفْعَلُ فَغَدَا عَلَيَّ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، وأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْه بَعْدَ ما اشْتَدَّ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فأذِنْتُ له فَلَمْ يَجْلِسْ حتَّى قالَ: أيْنَ تُحِبُّ أنْ أُصَلِّيَ مِن بَيْتِكَ؟ فأشَرْتُ له إلى المَكَانِ الذي أُحِبُّ أنْ أُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَكَبَّرَ، وصَفَفْنَا ورَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ وسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ، فَحَبَسْتُهُ علَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ له، فَسَمِعَ أهْلُ الدَّارِ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في بَيْتِي، فَثَابَ رِجَالٌ منهمْ حتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ في البَيْتِ، فَقالَ رَجُلٌ منهمْ: ما فَعَلَ مَالِكٌ؟ لا أرَاهُ. فَقالَ رَجُلٌ منهمْ: ذَاكَ مُنَافِقٌ لا يُحِبُّ اللَّهَ ورَسولَهُ، فَقالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: لا تَقُلْ ذَاكَ ألَا تَرَاهُ قالَ: لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بذلكَ وجْهَ اللَّهِ، فَقالَ اللَّهُ ورَسولُهُ أعْلَمُ، أمَّا نَحْنُ، فَوَ اللَّهِ لا نَرَى وُدَّهُ ولَا حَدِيثَهُ إلَّا إلى المُنَافِقِينَ، قالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: فإنَّ اللَّهَ قدْ حَرَّمَ علَى النَّارِ مَن قالَ: لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بذلكَ وجْهَ اللَّهِ قالَ مَحْمُودُ بنُ الرَّبِيعِ: فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فيهم أبو أيُّوبَ صَاحِبُ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في غَزْوَتِهِ الَّتي تُوُفِّيَ فِيهَا، ويَزِيدُ بنُ مُعَاوِيَةَ عليهم بأَرْضِ الرُّومِ، فأنْكَرَهَا عَلَيَّ أبو أيُّوبَ، قالَ: واللَّهِ ما أظُنُّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، قالَ: ما قُلْتَ قَطُّ، فَكَبُرَ ذلكَ عَلَيَّ، فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إنْ سَلَّمَنِي حتَّى أقْفُلَ مِن غَزْوَتي أنْ أسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْه، إنْ وجَدْتُهُ حَيًّا في مَسْجِدِ قَوْمِهِ، فَقَفَلْتُ، فأهْلَلْتُ بحَجَّةٍ أوْ بعُمْرَةٍ، ثُمَّ سِرْتُ حتَّى قَدِمْتُ المَدِينَةَ، فأتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ، فَإِذَا عِتْبَانُ شيخٌ أعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ سَلَّمْتُ عليه وأَخْبَرْتُهُ مَن أنَا، ثُمَّ سَأَلْتُهُ عن ذلكَ الحَديثِ، فَحدَّثَنيهِ كما حدَّثَنيهِ أوَّلَ مَرَّةٍ. (عن عتبان بن مالك.صحيح البخاري.1186، مع الفتح (3/73)].
حافظ ابن کثیر بھی اسے شریک غزوہ قسطنطینہ مانتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ اس غزوے میں متعدد سادات و اجلاء صحابہ بھی شریک تھے؛ 
"ثم دخلت سنة تسع وأربعين 
فيها غزا يزيد بن معاوية بلاد الروم حتى بلغ قسطنطينية ، ومعه جماعة من سادات الصحابة، منهم; ابن عمر، وابن عباس، وابن الزبير، وأبو أيوب الأنصاري. 
وقد ثبت في "صحيح البخاري" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "أول جيش يغزون مدينة قيصر مغفور لهم "فكان هذا الجيش أول من غزاها ، وما وصلوا إليها حتى بلغوا الجهد.
(البداية والنهاية 180/11)
ذہبی لکھتے ہیں کہ اس کے پاس بعض کمزوریوں کے علی الرغم غزوہ قسطنطینیہ میں شرکت کی صورت میں حسنات کا ذخیرہ موجود ہے:
"له على هناته حسنة، وهي غزو القسطنطينية، وكان أمير ذلك الجيش، وفيهم مثل أبي أيوب الأنصاري" (سيرأعلام النبلاء (4/36) 
اور بھی دیگر مورخین و محدثین نے اس غزوے میں اس کی شرکت کی صراحت کی ہے، لہذا وہ بمقتضائے حدیث مغفرت کی بشارت کے عموم میں شامل ہے، اسے بلاوجہ خارج کرنا قرین عدل وانصاف نہیں ہے۔
اگر اسے کمزور اور غیرثابت روایات کے ذریعے مجسم فسق گردانا جارہا ہو تو ان روایات کی تحقیق کے درپے ہونا اور الزامات کی بیخ کنی کرنا سکوت کے منافی نہیں ہے. ہاں اسے امام ہادی و مہدی ماننا یا اصحاب رسول کی طرح اس کی ہر بات کے دفاع کے فراق میں رہنا اور قصیدہ خوانی کرتے ہوئے اسے خلیفہ راشد گرداننا بھی صحیح نہیں ہے. اہل بیت اور بعض اجلاء تابعین کی تعدیل کے سامنے بعد کے علماء کرام کی تفسیق بغیر مفسق چنداں ضرر رساں نہیں. تفسیق یزید اصول دین میں سے نہیں ہے. نہ یہ مدار سنیت ہے. اس کا مبنی تحقیق و تفتیش ہے. قائلین فسق کی نظروں میں ممکن ہے اس کی کوئی وجہ رہی ہوگی اور منکرین فسق کی نظروں میں بھی یقیناً اس کی وجوہات ہیں۔ تفسیق پہ زور صرف کرنا اور گہرائی میں اترنا. اسی طرح بیجا تعدیل وتوصیف اور قصیدہ گوئی کرنا دونوں جادہ اعتدال سے تجاوز ہے. 
کس قدر چشم کشا اور بصیرت افروز یہ بات ہے:
ويعلم أن الرجل الواحد تكون له حسنات وسيئات، فيحمد ويذم، ويثاب ويعاقب، ويحب من وجه ويبغض من وجه وهذا هو مذهب أهل السنة والجماعة، خلافاً للخوارج والمعتزلة ومن وافقهم (منهاج السنة (4/544)
یہ اس قابل ہے کہ اسے چشم سر کے راستے قلب ونظر میں اتار لیا جائے۔ قائلین فسق باحثین اتفاق اکابر ثابت کرنے میں کامیاب رہے. اجماع شرعی ثابت نہیں ہوسکا. اور فسق یزید کا جزو سنیت ہونا بھی ثابت نہیں ہوسکا. منکرین فسق باحثین تفسیق کو اصول دین میں سے اور مجمع علیہ شرعی نہ ہونے اور مدار سنیت نہ ہونے کو ثابت کرنے میں کسی قدر کامیاب رہے. صحابہ و تابعین کے اقوال میں تردید فسق یزید کے کافی مواد موجود ہیں، بار بار مطالبہ کے باوجود اسے ثابت نہیں کیا جاسکا۔ 
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی طرف سے صادر فتاوی پورے ادارے کی ترجمانی کرتے ہیں. فتوی تحریر کرنے والے مفتی کی شخصی اور نجی حیثیت ملحوظ نہیں ہوتی. ہر صادر فتوی باضابطہ ادارے کا فتوی سمجھا جاتا ہے. جس سے ادارے کے موقف کی ترجمانی و عکاسی ہوتی ہے. ادارے کی طرف سے تصدیق وتائید شدہ شائع فتوی کو کسی خاص مفتی کی رائے قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 
حلقے میں مشترک ابحاث کے پیش نظر غایت عجلت میں یہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے. جس میں نقص وکمی کا بسا امکان موجود ہے- اہل علم سے خامیوں اور کوتاہیوں پہ مطلع کرنے کی گزارش ہے. 
خیال رہے کہ یزید کی تفسیق کو امرتحقیق تک ہی محدود رکھیں! جس کی رسائی جہاں تک ہوسکے اسے اپنائے، خدا را اسے عوامی عقیدہ نہ بنائیں، ورنہ پھر یہ مختلف اندیشوں اور اضطرابات کا ذریعہ اور سبب بنے گا، إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت وما توفيقي إلا بالله عليه توكلت وإليه أنيب.
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
مورخہ 18 محرم الحرام 1444 ہجری 
مطابق 17 اگست 2022 عیسوی 
بروز چہار شنبہ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر