عارف باللہ حضرت مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی ادام اللہ. 
آپ سلسلۀ تھانوی کے متصلب مگر خوش فکر بزرگ رہنما ہیں نصف درجن سے زائد اھل اللہ اور روحانی شخصیات کی نسبتوں کے جامع ہیں ، بزم اشرف کے روشن چراغ مسیح الامة حضرت مولانامسیح اللہ خان شیروانی طاب ثراہ کے عاشق زار اور ترجمان ۔
سن پیدائش _1933 ہے  والد گرامی قاری عبدالکریم ابن محب النبی تھےجو حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی سے بیعت واسترشاد کا علاقہ رکھتے تھے ، ماموں جان قاری عبدالرحیم نعمت پوری حضرت تھانوی کے ہم سبق وعقیدت کیش جبکہ داداجان شیخ طریقت حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم رائے پوری سے مربوط ومنسلک رہے،
ایسے علمی اور دین پسند گھرانے میں پروان چڑھنے والے فرد خوش نصیب کا تعلیمی منطقہ اس طرح روشن ہوا کہ ابتدائی تعلیم اور حفظ کلام اللہ  کا سلسلہ نعمت پور اور رائے پور میں رہا جبکہ درس نظامی کا مکمل نصاب مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں وہاں کے مشاہیر اساتذہ کرام سے پڑھا ۔ دوران تعلیم ہی حضرت مسیح الامت کی توجہات اور دعائیں لینا اپنا وظیفۀ حیات بنایا ، 
تعلیم وتربیت سے رسمی فراغت کے بعد اپنے قریبی بزرگوں کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مدرسہ انوارالقرآن نعمت پور میں تدریسی سفر کی بسم اللہ ہوئی جہاں آپ نے شرح جامی کنزالدقائق اور شرح وقایہ جیسی کتابیں نیک نامی سے پڑھاکر اپنے اساتذہ اور بزرگوں کا اعتماد بھی حاصل کرلیا ،
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا ،حضرت مولاناشاہ محمداسعد اللہ رام پوری قطب زماں مولاناشاہ عبدالقادر رائے پوری شیخ الاسلام حضرت مدنی اور حکیم الأسلام حضرت قاری محمدطیب جیسے اکابر واسلاف کی خدمت اور دعاؤں نے آپ کے دل کی دنیا روشن کردی ۔ جس کا خوشگوار نتیجہ یہ ہوا کہ جب بعض اکابر کے مشورہ پر آپ نے یمنانگر ہریانہ کے قصبہ بوڑیہ میں تدریس کا بارگراں اٹھایا تو طلبہ جوق درجوق آنے لگے ، دیکھتے ہی دیکھتے طلبہ کا رجوع بڑھ گیا
آپ نے یہاں ابتدائی عربی درجات کی تمام کتابیں تن تنہا پڑھائیں۔
آپ کے طلبہ کا امتحان لینے والے اس وقت کے نامی گرامی مدرسین اور جید علماء ہواکرتے تھے جن میں شیخ حضرت مولانامحمدیونس جون پوری ، فقیہ اسلام حضرت مفتی مظفرحسین اجراڑوی ، حضرت مولاناقاری شریف احمدگنگوہی ، شیخ حضرت مولاناعبدالحق اعظمی اور حضرت مولاناقاری رضوان نسیم دیوبندی کو سرفہرست رکھا جاسکتاہے۔
حضرت بوڑیوی سے شرف تلمذ حاصل کرنے والے بہت سے اھل علم اس وقت مرکزی اداروں میں علم حدیث کی نمایاں خدمت انجام دے رہے ہیں ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدطاہر رائے پوری بھی آپ کے بالکل ابتدائی شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں ،
مولانابوڑیوی کو علوم القرآن خصوصا فن تجوید وقرات سے اشتغال زیادہ رہا ہے ، ہم لوگ خود جس علاقہ اور ماحول میں پلے اور بڑھے وہاں بوڑیہ کے قاری عبدالستار کا نام کانوں میں پڑتا رہتا تھا آپ سے تجویدوقرآت میں استفادہ کرنے والے کئی اچھے مدرسین بھی یہاں آئے جن کا حلقۀاثر دیر تک باقی رہا۔ یہ عقدہ تو بعد میں کھلا کہ  ہمارے قریب میں واقع  شیرپور خانہ زاد پور ہی آپ کا پیدائشی قریہ ہے ،
بہرکیف حضرت مولانا گزشتہ ساٹھ پینسٹھ سالوں سے بوڑیہ سرزمین کو اپنے علم واختصاص کا مرکز بنائے ہوئے ہیں نصف صدی سے زائد کے اس دوارنیہ میں بے شمار خلق کثیر آپ سے استفادہ کرچکی ہے ، آپ کےقلب وقالب پر جہاں اھل روحانیت بزرگوں کی نسبتوں کا خاص اثر ہے وہیں فن تجوید وقرأت میں آپ کی مستحکم شناخت اور استنادی رشتہ نے خواص کے ایک طبقہ کو بجاطور سے متأثر کیا ہے۔
دارالعلوم دیوبند ، مظاہرعلوم سہارن پور اور دوسرے اداروں  کے وہ اساتذہ اور طلبہ بھی آپ سے رجوع کرتے ہیں جنھیں فن تجوید اور قرات قرآن سے لگاؤ رہتا ہے ، یہ حضرات بھی گاہے گاہے بوڑیہ واردہوکر آپ سے استفادہ کرتے ہیں اورسند تجوید کے متمنی رہتے ہیں۔
یہ سندِ تجوید کیا ہے ؟ بتادیں کہ حضرت مولانا قاری عبدالستار مفتاحی خود صاحب علم وفضل ہونے کے ساتھ بہت سے مجودین اور مستند قراءعظام کے معتمد علیہ رہے ہیں ، برصغیر ہندوپاک میں شارح شاطبی، شیخ القرآ حضرت مولاناقاری فتح محمدپانی پتی مہاجرمدنی کے علمی مقام اور خدمات تجوید وقرات سے ایک جہان واقف ہے ، شیخ الاسلام مولانا مفتی محمدتقی عثمانی نے آپ کو وقت کا امام الجزری تحریر فرمایا ہے ، جبکہ شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس جون پوری آپ کو امام الجزری کا ہم پلہ قراردیتے تھے ، اسی طرح آپ کے خاص الخاص تلمیذرشید اور جانشین حضرت قاری محمدطاہر صاحب بھی فن تجوید میں اتھارٹی کی حیثیت رکھنے والی محبوب شخصیت رہی ہے ، حضرت بوڑیوی کو اول الذکر سے مراسلت ومکاتبت  اور پھر  ہندوستان آمد پر استفادہ کا موقعہ ملاہے جس کے ذیل میں آپ نے اجازت تجوید دے کر اپنے اعتمادواعتبار کا اظہار فرمایا جبکہ ثانی الذکرفنی شخصیت نے سفرحرمین شریفین کے دوران حضرت بوڑیوی کو ان کی خدمات تجوید سے متأثرہوکر اپنی خآص سند تجوید مرحمت فرمائی حضرت بوڑیوی اس امانت کو اس کے مستحقین تک پہنچانے میں لیت ولعل سے کام نہیں لیتے ، 
محمدساجدکھجناوری
 
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں