ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

مدارس کے طلبہ سے زیادہ عصری اداروں کے طلبہ رحم کے لائق

مدارس میں پڑھنے جانے والے دو فیصد بچوں کے نصاب تعلیم کی دانشوروں کو فکر لاحق ہے کہ نصاب میں زیادہ سے زیادہ دینی علوم کی کتابیں نکال کر معاشی علوم کی کتابیں رکھی جائیں لیکن اٹھانوے فیصد سکول و کالج جانے والے بچوں کے دینی تعلیم کی دانشوروں کو کوئی فکر نہیں ہے، کتنے ہمارے ساتھی ہیں جو یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے اور وہاں کی بے راہ روی بتاتے رہتے ہیں، ہمارے کشمیر کی جو بچیاں خصوصاً بنگلور و چندی گڑھ کے کالج و یونیورسٹی میں پڑھنے جاتی ہیں نوے فیصد کشمیری مسلم بچیاں بنگلور میں ہنود اور چندی گڑھ میں سکھ لڑکوں کے ساتھ رلیشن شپ میں رہتی ہیں، بات بنی تو ٹھیک ورنہ بہت سی بعد میں ارتداد کی راہ اختیار کر لیتی ہیں، ایک طالبہ جو کشمیر سے باہر پڑھ رہی ہیں اپنا تجربہ اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ٹویٹ کیا کہ"میں بحیثیت کشمیری طالبہ اولیاء کو یہ مشورہ دوں گی کہ کشمیر سے باہر تنہا اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم کے لئے ہرگز نہ بھیجیں!"، یہی حال مسلم اداروں کا بھی ہے، جامعہ ملیہ، علی گڑھ و مولانا آزاد یونیورسٹی اسی طرح غیر مسلم اداروں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کی دینی فکر کی سخت ضرورت ہے، اس پہ بھی دھیان دینا دانشوران کو بے حد ضروری ہے، اس وقت اشاعت تعلیم سے زیادہ نئی نسل کے حق میں تحفظ دین اہم ہے! 
مفتی غلام رسول قاسمی
#muftigulamrasool

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شانِ طالب علمانہ۔۔۔۔کل اور آج

مال اور عہدہ کی چاہت

سوانح مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی

رات میں جماع کیا لیکن غسل نہیں کیا تو کوئی حرج ہے کیا

دارالعلوم دیوبند کے عربی دوم کے طالب کا ہنر