اشاعتیں

دسمبر, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ای۔ دارالعلوم الاسلامیۃ دیوبند، عہدِ جدید کی معصوم کلیوں کے لئے محفوظ علمی گلشن

تصویر
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی  بنات کی اقامتی تعلیم گاہوں کے بلاشبہ اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ وہاں کا خصوصی ماحول، اوقات کی پابندی اور ہم جماعتوں کی رفاقت علمی ذوق کو پروان چڑھاتی ہے؛ مگر سچ یہ ہے کہ راقم الحروف کو نصاب و نظام کے مکمل مامون ومحفوظ ہونے پہ ہمیشہ تردد دامن گیر رہا اور مکمل قلبی انشراح نصیب نہ ہوا،کچھ اس لئے بھی کہ عصری ماحول میں پرورش پانے والی طالبات کو خالص اقامتی طرز پر مقید کردینا نہ ہمیشہ سہل ہے اور نہ ہی ہر گھرانے کے لئے موزوں تر ۔ اس کے بالمقابل، عصرِ حاضر کی عصری درسگاہوں کی طالبات کو اسلامی افکار و نظریات اور علومِ شرعیہ سے جوڑنا بھی نہایت اہم اور ناگزیر تقاضا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور لادینی عہد میں جب کہ ہر سمت نت نئے فتنوں اور تہذیبی یلغار کی بارش ہے، بچیوں کے لئے ایک ایسا محفوظ علمی نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ شکر ہے کہ اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم اس میدان میں فکر و جستجو کے ساتھ کوشاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر نہایت مفید و کامیاب تجربات ونتائج پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو مزید وسعت و استحکام عطا فرمائے۔ انہی روشن کوششوں ...

مظاہروں سے لرز گئی مودی سرکار مسلم قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھی ہے

تصویر
مظاہروں سے لرز گئی مودی سرکار مسلم قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھی ہے کیوں اُٹھ کر مظاہروں میں شامل نہیں ہوتی شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) اب کسی بات پر حیرت کم ہی ہوتی ہے۔۔۔۔ ہاں کچھ افسوس ہوتا ہے اور افسوس سے بھی زیادہ غصہ آتا ہے۔شاید اسی لیے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ہمراہ امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی اور دیگر علماء کرام کی ہنستی مسکراتی تصویر دیکھ کر حیرت نہیں ہوئی ۔ تھوڑا سا افسوس ضرور ہوا‘ پر غصّہ جیسے کہ آنا چاہئے تھا‘ بالکل نہیں آیا۔ شاید اس لیے کہ غصّہ ’اپنوں ‘ پر آتا ہے‘ پر یہ محترم اور معزز ہستیاں اب ’اپنی‘ رہی کہاں ہیں! حضرت امیر شریعت کا وہ’ آڈیو بیان‘ جس کا ذکر اِ ن دنوں سوشل میڈیا پر خوب ہے میں نے بھی سُنا ہے۔ندوہ کے ایک فاضِل نے این آر سی اور کالے شہریت قانون کے خلاف حکمرانوں پر ’پریشر‘ بنانے کی درخواست کی تھی‘ حضرت کا جواب تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم پریشر کس کو کہتے ہیں‘ انہوں نے ساتھ ہی یہ ’انکشاف‘ بھی کیا تھا کہ ’ہم اپنے اعتبار سے کوشش کررہے ہیں‘۔ حضرت امیر شریعت کی بات پر اعتبار ہے ‘ یقیناً ’اپنے اعتبار سے کوشش ‘ کی ہوگی لیکن ’یہ کو...

ملک گیر احتجاج میں شدت، مہلوکین کی تعداد ۲۰ ہوگئی

تصویر
ملک گیر احتجاج میں شدت، مہلوکین کی تعداد ۲۰ ہوگئی کالے قانون کے خلاف بہار بند کامیاب،کئی جگہ فائرنگ، پتھرائو، تشدد، آتشزنی، متعدد زخمی،مودی امیت شاہ کے خلاف نعرے، یوپی میں مہلوکین کی تعداد بڑھ کر ۱۶ ہوگئی، جامعہ ملیہ سمیت پوری دہلی میں مظاہرے، یوگی راج میں ۲۱ اضلاع میں انٹرنیٹ بند، جگہ جگہ پولس کا کریک ڈائون، تعلیمی اداروں پر تالے، جبل پور اور منگلورو میں کرفیو نئی دہلی؍ لکھنو؍ پٹنہ؍ بنگلورو؍ بھوپال۔ ۲۱؍دسمبر: شہریت ترمیمی بل کے خلاف سنیچر کو بھی دارالحکومت دہلی ، اترپردیش اوربہار میں لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکلے، جگہ جگہ توڑ پھوڑ، فائرنگ، تشدد، آتشزنی، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے داغے گئے،پتھرائو میں سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ بہار میں آج راجد کی طرف سے بند کا اعلان کیاگیا تھا جس کی وجہ سے پورا بہار آج بند رہا جگہ جگہ تشدد، توڑپھوڑ آتشزدگی کی واردات رونما ہوئیں۔ یوپی میں ۳۱جنوری تک دفعہ ۱۴۴ نافذ کردیا گیا ہے۔گزشتہ دو دنوں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب بھی ۲۱اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بند ہے۔جیسے جیسے حالات بہتر ہوتے جائیں گے، ویسے ویسے ضلع مجسٹریٹ انٹرنیٹ سروس شروع کر ...

احتجاجی مظاہرے کے ذریعے حکومت کے تختے بھی پلٹتے دیکھے ہیں

تصویر
مفتی غلام رسول قاسمی  حق کے لئے کوشش انتہا تک ہونی چاہئیے، چھوٹی بڑی مشکلات لگی رہتی ہیں، نتیجے اللّه کی طرف سے آتے ہیں. اس وقت پورے ہندوستان میں احتجاج کی صدائیں بلند ہو رہی ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے نظر آئے کہ احتجاج سے کچھ نہیں ہونے والا، طلاق ثلاثہ کے وقت بھی بڑی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں تھیں کیا ملا؟ حکومت کہاں دباؤ میں آئی؟ ان سے بس اتنا کہوں گا کہ اس وقت احتجاج ہی واحد راستہ ہے جس سے ہم اپنی ناراضگی کا اظہار کر سکتے ہیں. احتجاج کا ہی نتیجہ ہے کہ اب تک پنجاب، بنگال، کیرالا، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر جیسے بڑے بڑے صوبوں نے اعلان کر دیا کہ ہم اپنے یہاں شہریت ترمیمی قانون کو نافذ نہیں کریں گے. اگر اسی طرح احتجاج جاری رہا تو اور بھی صوبے اس صف میں شامل ہوجائیں گے، معترضین سے یہ بھی کہوں گا کہ اس وقت ہمیں قوم کو خوف زدہ کرنے کے بجائے عوامی سطح پر حوصلہ دینے کی سخت ضرورت ہے، خوف اور ڈر پھیلانے والے تو بہت ہیں ہم تو کم از کم ایسا نہ کریں! یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قریہ قریہ گاؤں ضلعی و علاقائی سطح پر اس کالے قانون سے عوام کو بیدار کریں! کیونکہ ایسے ناقابل ...

موت کے منہ سے واپسی

تصویر
موت سے واپسی!  محمد علم اللہ  جامعہ کے طالب علم کی درد بھری داستان : جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں پولس کے داخلہ اورطلبہ پر جبرنیز اسٹاف کی بدسلوکی کی معمولی سی خبر بعض میڈیانے دی ہے،لیکن اندر کیا کچھ ہوا،اور تشدد و مظالم کی انتہا کس حد تک کی گئی،اس کا اندازہ باہر کے لوگ نہیں لگاسکتے۔چونکہ میں اس پورے واقعہ کا چشم دیدگواہ  ہوں،لہٰذا’بیان گواہی‘کی ایک غیر رسمی صحافتی ذمے داری نبھانے کی کوشش کررہاہوں تاکہ عام لوگوں کو علم ہوسکے کہ جامعہ کے اندر پولس نے کس طرح بربریت کی اور 15دسمبر کے احتجاج سے جامعہ برادری کا جو خواہ مخواہ رشتہ جوڑ نے کی سعی کی جارہی ہے،اس بابت حقیقی صورتحال کو سمجھنا ممکن ہو۔   یہ بتانا ضروری ہے کہ طلبہ کا احتجاج دو پہر میں ہی ختم ہو گیا تھا ، ہم سب لائبریری میں اپنی اپنی پڑھائیوں میں مصروف تھے ، تبھی اچانک چیخنے چلانے اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں ، باہر نکلے تو پتہ چلا کہ دہلی پولس نے کیمپس میں آنسو گیس کے گولے داغ دیے ہیں ۔  پولیس نے اپنی حیوانیت ودرندگی کاایک نمونہ یوں بھی پیش کیاکہ جامعہ کے اندرگھستے ہی لائٹس آف...

احتجاجی غزل

تصویر
------۔ احتجاجی غزل --------- بتناظر جامعہ ملیہ اسلامیہ و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جانبازوں کے جذبات پر  کامران غنی صباؔ امیرِ شہر کی مسند پہ اُس کے بام پہ تھُو وہ جس مقام سے گزرے ہر اُس مقام پہ تھُو لکھوں گا تھوک سے فرعونِ وقت نام ترا اور اُس پہ تھوک کے بولوں گا تیرے نام پہ تھُو مجھے قبول نہیں ہے نظامِ نو تیرا ہزار بار کہوں گا ترے نظام پہ تھُو وہ جس کو پی کے لہو میں کوئی اُبال نہ ہو اُٹھا کے پھینک دو ایسے ہر ایک جام پہ تھُو مرے لہو کے چراغوں سے جو نہ روشن ہو تو ایسی شام پہ لعنت، تو ایسی شام پہ تھُو صباؔ یہ وقت نہیں ہے کہ بات حُسن کی ہو لہو نہ گرم ہو جس سے ہر اُس کلام پہ تھُو